سورۃ الصف کی آیت ۵ وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہ... جس سلسلۂ کلام اور جس ربط کے ساتھ اس سورۂ مبارکہ میں وارد ہوئی ہے‘ اس کے مطابق اس کا اصل مفہوم واضح ہو گیا.لیکن جیسا کہ بارہا عرض کیا گیا ہے‘ یہ بات پیش نظر رہے کہ قرآن مجید کی ہر آیت اپنی جگہ علم و حکمت کا ایک مکمل موتی ہے. اسے جب ایک سلسلۂ مضمون کی کڑی میں پرویا جاتا ہے تو اس کا ایک مفہوم اور ایک رُخ متعین ہو جاتا ہے‘ لیکن اس کا کوئی دوسرا رُخ بھی ہو سکتا ہے جو اس سلسلۂ کلام کے اعتبار سے اگرچہ ضمنی قرار پائے گا لیکن اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہو گی. اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن حکیم کے علوم و معارف کے بہت سے قیمتی موتی اسی طرح آیات کے ضمنی مضامین کی حیثیت سے واردہوئے ہیں.

یہاں فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ (پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو بھی کج کر دیا)کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے قانونِ ہدایت و ضلالت کی ایک بہت اہم دفعہ بیان ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ہدایت یا ضلالت میں سے کسی ایک کو اپنانے کا اختیار (choice) دیا گیا ہے. جیسا کہ سورۃالدھر میں فرمایا گیا: اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ﴿۳﴾ ’’خواہ وہ شکر بجا لانے والا بنے خواہ کفر کرنے والا‘‘. چاہے اِدھر آ جائے‘ چاہے اُدھر چلا جائے.انسان اگر ہدایت کی راہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے کھولتا چلا جائے گا‘ آسان کرتا چلا جائے گا‘ اور اگر وہ کج روی اختیار کرے گا تو وہی راستہ اس کے لیے آسان کردیا جائے گا اور پھر اس پر وہ بڑھتا چلا جائے گا. اور جب انسان غلط راستے پر پڑ جائے اور پھر اس پر بڑھتا چلا جائے تو ایک وقت ایسا آتا ہے جسے ہم انگریزی میں ’’point of no return‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں. گویا آدمی اس درجے آگے نکل گیا کہ اب واپسی کا امکان ہی نہیں. اس مرحلے کو قرآن حکیم ان الفاظ سے تعبیر کرتا ہے: 

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ (البقرۃ:۷’’اللہ نے اُن کے دلوں پر اور اُن کی سماعت پر مہر لگا دی ہے ‘اور اُن کی آنکھوں پر پردے پڑ گئے ہیں.‘‘

اسی کیفیت کے لیے یہاں 
’’اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں.یعنی جب انہوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو بھی ٹیڑھاکر دیا. اس لیے کہ اللہ‘کا یہ ضابطہ اور قانون ہے کہ وہ کسی کو بالجبر ہدایت کی راہ پر نہیں لانا چاہتا. چنانچہ آیت کے اختتام پر فرما دیا گیا: وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۵﴾ یعنی اللہ ان لوگوں کو جو فسق و فجور ہی کی راہ اختیار کر لیں‘ جو کج روی کو پسند کر لیں‘ زبردستی ہدایت نہیں دیا کرتا.

مذکورہ بالا آیۂ مبارکہ میں تاریخ بنی اسرائیل کے ایک دَور کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے‘ جب اللہ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے مابین موجود تھے اور اس کے باوجود ان کا طرزِ عمل یہ تھا. تورات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ بنی اسرائیل سے خطاب کر کے انہوں نے فرمایا: ’’اے قوم! تو تو اس چھنال کی مانند ہے کہ جو پہلی شب میں بے وفائی کی مرتکب ہوئی ہو!‘‘