اس کے بعد آتی ہے وہ آیت جس میں یہود کے اس طرزِ عمل کا ذکر ہے جو انہوں نے محمد رسول اللہ کے ساتھ اختیار کیا‘ اور جس کی طرف اشارہ اس سے پہلی آیت میں موجود ہے. یہود کی بدبختی اور بدنصیبی ملاحظہ ہو کہ وہ خود منتظر تھے آخری نبی کی بعثت کے ‘ اور ان سے یہ توقع تھی کہ وہ بڑھ کر آپ کا استقبال کریں گے. ان کے کچھ قبیلے آ کر عرب میں آباد ہی اس لیے ہوئے کہ ان کی کتابوں میں یہ خبر تھی کہ کھجوروں کی سرزمین میں آخری نبی کا ظہور ہو گا. چنانچہ اس اُمید میں کہ ہم اس کا وقت پا لیں اور اس کے ساتھی بن سکیں‘ ان کے کچھ قبیلے یہاں آ کر آباد ہوئے‘ اور وہ اوس و خزرج کے لوگوں کو دھمکایا کرتے تھے کہ اس وقت تو تم ہم پر غالب ہو‘ ہمیں دبا لو جتنا چاہو‘ لیکن ایک وقت آنے والا ہے ‘اور وہ دُور نہیں ‘کہ نبی آخر الزّمان کا ظہور ہونے والا ہے ‘اور جب ہم ان کے ساتھ ہو کر تم سے جنگ کریں گے تو تم ہم پر غالب نہ آ سکو گے.لیکن یہود کی کہی ہوئی اسی بات کی وجہ سے اوس اور خزرج کے لوگ ایمان میں پیش قدمی کر گئے.

بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر رسول اللہ نے حج کے لیے آئے ہوئے مدینہ کے چھ افراد کے سامنے دعوت پیش کی تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور آپس میں سرگوشی کی کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی رسول ہیں جن کا یہود حوالہ دیا کرتے ہیں اور جن کا ذکر کیا کرتے ہیں‘ اور آؤ اس سے پہلے کہ یہود پیش قدمی کریں‘ ہم اُن پر سبقت کریں اور ایمان لے آئیں. تو اللہ نے انہیں ایمان کی دولت سے سرفراز فرمادیا اور یہود اس نعمت سے محروم رہے‘ اور نہ صرف محروم رہے بلکہ یہ قوم نبی 
اکرم کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہی اور آپؐ کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں کھلے کھلے کافروں اور مشرکوں کو مات کر گئی. یہاں قرآن نے ان پر ایک تعریض کے انداز میں ان کی جو اصل صورت حال تھی‘ اس کا نقشہ اِن عجیب الفاظ میں کھینچا ہے:

یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ 
’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں.‘‘

مولانا ظفر علی خاں نے دراصل یہیں سے اپنے اس شعر کے لیے خیال اخذ کیا ہے: ؎

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!

یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ کے الفاظ میں خاص طو رپر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہود کبھی بھی کھلے میدان میں رسول اللہ کا مقابلہ نہ کر سکے. ابوجہل مقابلے پر آیا تو مرنے اور مارنے کے لیے آیا اور اس نے اپنی گردن کٹا لی. لیکن یہود میں یہ حوصلہ نہ تھا. قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اے نبی! یہ یہودی کبھی آپ کے ساتھ کھلے میدان میں مقابلے پر نہ آئیں گے. ان کا سارا معاملہ کہیں دیواروں کے پیچھے سے اپنا تحفظ لے کر‘ کہیں چھتوں کے اوپر سے پتھر برسا کر. یا دوسروں کو ابھار کر اور اشتعال دلا کر آپ کے خلاف اکسانے کی طرح کا ہی ہو گا. یہاں اسی کی طرف تعریض کے انداز میں اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں. 

وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ 
’’اور اللہ تو اپنے نور کا اتمام کر کے رہے گا‘ اگرچہ یہ کافروں کو کیسا ہی ناگوار گزرے‘‘.

اللہ کا یہ اٹل فیصلہ ہے اور تاریخ نسل انسانی کا وہ وقت آ چکا ہے کہ اس نور کا اِتمام کر دیا جائے‘ اس ہدایت کی تکمیل ہو جائے‘ وہ وقت آ جائے جبکہ اعلانِ عام ہو کہ 
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدۃ:۳اور اللہ کا یہ اٹل فیصلہ پورا ہو کر رہے گا. بعثت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام حکمت خداوندی کے اسی تقاضے کے تحت ہوئی ہے.