اگلی دو آیات گویا اسی آخری ٹکڑے ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ کی شرح ہیں‘ جن میں ’’ترغیب‘‘ کا انداز اختیار کیا گیا ہے. چنانچہ ان میں ایک کے بعد دوسرے انعام اور اعلیٰ مراتب کا ذکر ہے کہ اگر یہ کرو گے تو کیا کیا کچھ ملے گا. تو سب سے پہلے فرمایا:
یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمْ ’وہ تمہاری خطائیں معاف فرمائے گا.‘‘
یعنی اگر تم اس راستے پر قدم بڑھاتے چلو اور اس سے دامن بچا کر نکلنے کی کوشش نہ کرو‘ اس فرضِ منصبی کی ادائیگی سے پہلوتہی نہ ہو‘ تو پھر اگر کہیں کوئی لغزش یا خطا ہو بھی گئی تو اللہ کا پہلا وعدہ تو یہ ہے کہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا‘ تمہاری غلطیوں کو معاف فرما دے گا‘ تمہارے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا.مزید برآں یہ کہ :
وَ یُدۡخِلۡکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ
’’اور تمہیں داخل کرے گا اُن باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ اور ان پاکیزہ گھروں میں جو جنات عدن میں ہیں.‘‘
یعنی ہمیشہ باقی رہنے والے رہائشی باغات (residential gardens) میں تمہیں اعلیٰ مسکن عطا فرمائے گا.
ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۙ۱۲﴾ ’’یہ ہے اصل کامیابی!‘‘
یہ ہے اصل فوز و فلاح. یعنی اصل کامیابی و کامرانی آخرت کی کامیابی ہے. یہ وہی مضمون ہے جو پورے شد و مد (emphasis) کے ساتھ سورۃ التغابن میں بیان ہو چکا ہے. وہاں فرمایا گیا: ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ (آیت ۹) ’’وہ ہے ہار اور جیت کے فیصلے کا دن‘‘. جو اُس روز جیتا وہ جیتا‘ اور جو اس روز ہارا وہ ہارا. جو اُس روز کامیاب قرار دیا گیا وہی کامیاب ہے اور جو اُس روز ناکام قرار پایا وہی ناکام ہے. چنانچہ اصل کامیابی یہی ہے‘بڑی کامیابی یہی ہے.
نصرتِ خداوندی اور فتح قریب کا وعدہ
وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ’’اور ایک اور چیز جو تمہیں بہت محبوب ہے.‘‘
نصرتِ خداوندی اور فتح قریب کا وعدہ
وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ’’اور ایک اور چیز جو تمہیں بہت محبوب ہے.‘‘یہ بڑا ہی عجیب اور قابلِ توجہ پیرایۂ کلام ہے. اللہ کے نزدیک تو اصل کامیابی وہ ہے جس کا ذکر ہو چکا‘ لیکن ایک اور چیز کا بھی وعدہ ہے‘ جو تمہیں بہت محبوب ہے‘ اور وہ ہے :
نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ
’’اللہ کی طرف سے مدد اور جلد فتح یابی.‘‘
یعنی اللہ کی طرف سے مدد کا وعدہ بھی ہے اور اس فتح کا بھی جو زیادہ دُور نہیں ہے‘ اب یہ مرحلہ آیا چاہتا ہے‘ اللہ کے دین کا غلبہ ہوا چاہتا ہے. درحقیقت اس سورۂ مبارکہ کے زمانۂ نزول کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو اِن آیات کا مفہوم صحیح طور پر سامنے آتا ہے. محسوس ہوتا ہے کہ یہ آیات غزوۂ احزاب کے فوراً بعد نازل ہوئیں. غزوۂ احزاب رسول اللہﷺ کی اس جدوجہد‘ کشمکش اور انقلابی دعوت میں ایک فیصلہ کن موڑ (turning point) کی حیثیت رکھتا ہے. اس کے بعد نظر آ رہا تھا کہ گویا اب صورتِ حال تبدیل ہو جانے والی ہے. (Tables were to be turned) اس کی طرف رسول اللہﷺ نے غزوۂ احزاب کے فوراً بعد ان الفاظ میں ارشاد فرمایا تھا کہ : لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا وَلٰـکِنَّـکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ (۱) یعنی اے مسلمانو! اِس سال کے بعد اب قریش تم پرقطعاً حملہ آور نہیں ہوں گے بلکہ اب تم ان پر جنگ مسلط کرو گے. یہ ان کی طرف سے آخری حملہ تھا‘ کفر کی کمر ٹوٹ چکی اور کفار حوصلہ ہار گئے‘ اب اقدام تمہاری طرف سے ہو گا. اسی کا گویا نقشہ ہے جو اس آیۂ مبارکہ کے الفاظ میں سامنے آ رہا ہے. اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کے وعدے کے ساتھ فرمایا جا رہا ہے :
وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾
’’اور (اے نبیﷺ !) اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے!‘‘
نبی اکرمﷺ کے مذکورہ بالا فرمانِ مبارک اور اس آیۂ مبارکہ کے مابین ایک گہرا منطقی ربط معلوم ہوتا ہے اور آپﷺ کا وہ قول اغلباً واللہ اعلم اسی آیۂ مبارکہ کے نزول کے بعد کی بشارت محسوس ہوتا ہے. یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبیﷺ ! اہل ایمان کو بشارت دیجیے کہ اب وہ مرحلہ دُور نہیں ہے. اب اللہ کی مدد آیا چاہتی ہے اور فتح تمہارے قدم چومنے کو ہے. لیکن اس پورے معاملے کو ’’اُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے. یعنی اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے کہ تم کامیاب ہوتے ہو یا ناکام! اس کے نزدیک تو اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے.
بندۂ مؤمن کافرض ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسے اللہ کی راہ میں لگا دے اور اپنے تمام وسائل میدان میں لا ڈالے.دنیا میں وہ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام‘ اس سے اس کی حقیقی کامیابی اور ناکامی کا کوئی تعلق نہیں. حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ یومِ اُحد ہی کو شہید ہو گئے اور انہوں نے دین کا غلبہ اپنی نگاہوں سے نہیں دیکھا. انہوں نے وہ دَور نہیں دیکھا جب اللہ کے دین کا جھنڈا لہرا رہا تھا‘ جب محمد رسول اللہﷺ میدانِ عرفات میں یا وادیٔ منیٰ میں سوا لاکھ کے مجمع کو خطاب فرما رہے تھے. لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ناکام ہوئے. نعوذ باللّٰہ من ذٰلک! یہی وجہ ہے کہ یہاں ان دو ‘وعدوں کو علیحدہ علیحدہ گروپ کیا گیا ہے. پہلا وعدہ خطاؤں کی بخشش اور داخلہ ٔ جنت کا ہے‘ جسے ’’اصل کامیابی‘‘ قرار دیا گیا ہے‘ اور دوسرا وعدہ اور خوشخبری ایک ایسی چیز کے بارے میں ہے جس کے لیے فرمایا گیا کہ ’’جو تمہیں بہت پسند ہے‘‘. انسان بربنائے طبع بشری اپنی جدوجہد کے نتائج کو دیکھنا چاہتا ہے‘ اپنی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھنے کی خواہش انسان میں فطری طور پر ہوتی ہے. یہاں اس کی طرف اشارہ فرمادیاگیا.