تلاوتِ آیات اور تزکیۂ نفوس کے بعد تیسرا مرحلہ ’’تعلیمِ کتاب‘‘ کا ہے. چنانچہ آگے فرمایا: 

وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ 
’’اور وہ تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب کی‘‘.

یہاں ایک بات نوٹ کر لینی چاہیے کہ جیسا کہ آغاز میں عرض کیا جا چکا ہے ’’ تلاوتِ آیات‘‘ میں بھی پیشِ نظر قرآن ہے. لیکن یہاں پھر جو کتاب کا لفظ آیا ہے تو اس میں یقینا قرآن مجید کا کوئی دوسرا پہلو پیش نظر ہے. اس طرح مختلف الفاظ سے قرآن مجید ہی کے مختلف گوشوں یا مختلف پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے. اس اصول کی روشنی میں غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید میں لفظ ’’کتاب‘‘ بالعموم قانون کے لیے آتا ہے ‘ مثلاً کسی چیز کے وجوب اور فرضیت کا بیان 
’’کُتِبَ‘‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے. جیسا فرمایا گیا: کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَام ’’تم پر روزہ رکھنا فرض کر دیا گیا‘‘کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ ’’تم پر قتال فرض کر دیا گیا‘‘. ایسے ہی وصیت کے وجوب کے بارے میں جو ابتدائی حکم تھا اس کے الفاظ ہیں: کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ... ’’تم پر واجب کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ موجود ہو اور اگر وہ کچھ مال چھوڑ کر جا رہا ہو تو والدین اور رشتے داروں کے لیے وصیت کر جائے!‘‘ کہیں آتا ہے : حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡکِتٰبُ اَجَلَہٗ ؕ ’’یہاں تک کہ قانون اپنی اصل مدت کو پہنچ جائے‘‘.تو لفظ ’’کتاب‘‘ کا اطلاق اس کی پوری ہمہ گیریت کے ساتھ پورے قرآن مجید پر بھی ہو گا.

لیکن جب قرآن کے مختلف پہلوؤں کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے جا رہے ہوں تو ’’کتاب‘‘ سے مراد قوانین اور احکام ہوں گے. چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کی وضاحت کے لیے مختلف الفاظ آ رہے ہیں. سب سے پہلے فرمایا: یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ اور یہاں ’’ تلاوتِ آیات‘‘ سے مراد لازمی طور پر قرآن حکیم ہی کی آیات کی تلاوت ہے. اس کے بعد وَ یُزَکِّیۡہِم کے الفاظ میں تزکیۂ نفوس کا ذکر کیا گیا جو اسی کا ایک منطقی نتیجہ ہے. پھر وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ میں جو لفظ ’’کتاب‘‘ دوبارہ آیا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد احکامِ شریعت (DOs & DON'Ts) ہیں‘ یعنی یہ کرو اور یہ نہ کرو! یہ حلال ہے اور یہ حرام!