انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کا آخری مرحلہ ’’تعلیمِ حکمت ‘‘ کا ہے.جیسا کہ فرمایا گیا: وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ ’’حکمت‘‘ کا لفظ اس سے پہلے سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے ضمن میں آیا تھا : وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اُس مقام پر لفظ ’’حکمت‘‘ پر گفتگو کی گئی تھی اور عرض کیا گیا تھا کہ عربی میں ’’ح ک م‘‘ کا مادی بنیادی طور پر کسی شے کی پختگی اور استحکام کے لیے آتا ہے. حکمت انسانی عقل اور شعور کی پختگی ہے. انسان کے اندر غور و فکر کی جو استعداد ہے اس کا پختہ (mature) ہو جانا اور اس میں اصابت رائے کی صلاحیت کا پیدا ہو جانا حکمت ہے اور یہ انسان کی صلاحیتوں میں بلند ترین چیز ہے.عام تعلیمی نظام میں بھی تربیت انسانی کے نقطۂ نظر سے یہ تدریج ملحوظ رکھی جاتی ہے کہ کسی بچے کو آپ پہلے تاریخ کے واقعات کا مطالعہ کروائیں گے اور اس کو یاد کروائیں گے کہ فلاں فلاں واقعات کب اور کیسے ہوئے. اس کے بعد پھر ایک مرحلہ ’’فلسفۂ تاریخ‘‘ کا آتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ فلاں قوم کو شکست کیوں ہوئی‘ فلاں تہذیب کو عروج کیوں حاصل ہوا اور فلاں تمدن زوال پذیر کیوں ہوا؟ وغیرہ. اسی طرح آپ جغرافیہ میں پہلے یہ پڑھائیں گے کہ فلاں ملک کی آب و ہوا کیا ہے‘ وہاں کی زرعی پیداوار کیا ہے اور وہاں کون کون سے معدنی ذخائر پائے جاتے ہیں. لیکن اس کے بعد پھر طبیعی جغرافی (Physical Geography) میں یہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ یہ تغیر و تبدل کیوں ہے؟یہ موسم اس طرح کیوں بدلتے ہیں؟ فلاں جگہ یہ چیز کیوں پیدا ہو رہی ہے؟ اور فلاں خطے میں یہ معدنیات کیوں پائی جاتی ہیں؟ تو درحقیقت یہ ’’کیوں اور کیسے؟‘‘ ہر گوشۂ علم میں چوٹی کی چیز ہے. اسی طریقے سے دینے کا معاملہ ہے. انسانی ذہن اور شعور تربیت پا کر وہ پختگی حاصل کر لیں کہ انسان دین کے ’’کیوں اور کیسے‘‘ کو سمجھ سکے تو یہ ’’حکمت‘‘ ہے. فاتح دورِ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’حُجَّۃُ اللّٰہِ البَالِغہ‘‘ کا موضوع یہی حکمت دین ہے کہ احکامِ شریعت میں کیا حکمتیں ہیں‘ ان کے کیا مقاصد ہیں؟

دین پر عمل کا ایک درجہ تو یہ ہے کہ ہر مسلمان کو شریعت کا اوامر و نواہی کی پابندی کرنی ہے. ’’سمع و طاعت‘‘ اس کے ایمان کا تقاضا ہے. 

?Theirs not to reason why
!Theirs but to do die

لیکن اس سے بلند تر سطح یہ ہے کہ وہ بصیرتِ باطنی اور enlightment پیدا ہو جائے کہ جس سے نظر آنے لگے کہ یہ حکم کیوں دیا جا رہا ہے‘ اس کی حکمتیں کیا ہیں‘ اس کی غرض کیا ہے ‘ اس کی علت کیا ہے‘ اس کی مصلحتیں کیا ہیں! انسان کے اپنے مفاد میں اور نظام اجتماعی کے اپنے مصالح کے اعتبار سے دین کے ان احکام کی کیا اہمیت اور کیا مقام و مرتبہ ہے!! اس مرحلے پر پہنچ کر حکم بوجھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ ایک نعمت معلوم ہونے لگتا ہے. تب شریعت کے اوامر و نواہی طبیعت کے لیے کسی ناگوار کیفیت کے حامل نہیں رہ جاتے‘ بلکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے انعام و احسان ہونے کا پہلو نمایاں ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں شریعت کو نعمت سے تعبیر فرمایا گیا ہے : اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ ... یعنی یہ اللہ کا انعام ہے کہ اُس نے تمہیں تمام پیچیدہ اور پرپیچ راہوں میں ایک درمیانی راہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ عطا فرما دی اور ایک متوازن اور معتدل نظام تمہیں عطا فرمایا. یہ سراسر انعامِ خداوندی ہے۱ اور اس نعمت کا اتمام ہوا ہے محمدٌ رسول اللہ پر. سورۃ البقرۃ میں اس ’’حکمت‘‘ کے بارے میں فرمایا گیا: وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ کہ جس کو حکمت عطا کر دی گئی اسے تو خیر کثیر سے نواز دیا گیا. اور واقعہ یہ ہے کہ یہ حکمت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی دولت ہے اور اللہ کا اُس شخص پر بہت ہی بڑا احسان ہے جسے اُس نے حکمت سے نوازا ہو. علامہ اقبال نے اسے ’’اِسرار دین‘‘ سے تعبیر کیا ہے. فرماتے ہیں: ؎ 

اے کہ می نازی بہ قرآنِ حکیم
تا کجا در حجرہ ہا باشی مقیم
در جہاں اسرارِ دیں را فاش کن!
نکتہ شرعِ مبیں را فاش کن!

تو حکمت دین کی تعلیم اور اس کا عام کیا جانا انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج میں چوٹی کا معاملہ ہے. گویا یہ اس کا مرتبۂ کمال اور نقطۂ عروج ہے.