اب آیئے اس آیۂ مبارکہ کے آخری ٹکڑے کی جانب : وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ ’’اور اگرچہ وہ پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘. بنو اسماعیل کی گمراہی کی تفصیل یہاں بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے. ان کے اوہام‘ ان کے مشرکانہ عقائد‘ ان کی اخلاقی زندگی کا نقشہ معلوم و معروف ہے. ’’ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ‘‘ کے مصداق وہ تہہ در تہہ گمراہیوں میں دھنسے ہوئے تھے.فکر کی‘ عقیدے کی‘ عمل کی‘ اخلاق کی‘ غرضیکہ ہر اعتبار سے وہ کجی اور گمراہی کا شکار تھے. پھر یہ کہ ان کے معاشرے میں کوئی نظام تھا نہ تنظیم‘ ہر ایک اپنی جگہ فرعون بے ساماں ہے‘ کوئی کسی کی بات سننے والا نہیں. وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ میں گویا اس پوری صورت حال کا ایک نقشہ کھینچ دیا گیا.