آگے فرمایا: وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُم آیت کا یہ ٹکڑا عطف ہو رہا ہے اُمِّیِین پر کہ دوسرے کچھ اور بھی ہیں جن کی طرف آپؐ کو مبعوث فرمایا گیا. یعنی بَعَثَ فِی الْاُمِّیٖنَ وَالاٰخِرِیْنَ مِنْھُمْ. حضورنبی اکرمﷺ کی بعثت اولاً ہوئی ہے اُمیین میں‘ لیکن آپؐ صرف اُمیین کے رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ ’’ آخرین‘‘ یعنی دیگر اقوام کے لیے بھی آپﷺ رسول بن کر تشریف لائے تھے. اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ نبی اکرمﷺ دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث ہوئے. آپ کی ایک بعثت خصوصی تھی اہل عرب کی طرف‘ بنو اسماعیل کی طرف‘ اُمیین کی طرف‘ جبکہ ایک بعثت عمومی تھی اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِیعنی پوری نوعِ انسانی کی جانب.جیسے کہ فرمایا گیا : وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ’’اور اے نبی! ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر پوری نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘. ’’نہج البلاغہ ‘‘ نبی اکرمﷺ کے زمانہ ٔ نبوت کے ابتدائی دور کے ایک خطبے میں آپؐ کے یہ الفاظ منقول ہیں: وَاللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰــہَ اِلاَّ ھُوَ ‘ اِنِّیْ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ خَاصَّۃً وَاِلَی النَّاسِ کَافَّۃً (۱) ’’اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں! میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری جانب بالخصوص اور پوری نوعِ انسانی کی طرف بالعموم‘‘ تو یہ ہے مفہوم اُمّیین اور آخرین کا. حضور نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا کہ یہ آخرین سے کیا مراد ہے؟ آپؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی قوم. آپؐ نے مزید فرمایا کہ حکمت اور دانائی کی کوئی بات اگر ثریا پر بھی ہو گی تو اس کی قوم کا کوئی نہ کوئی فرد وہاں سے بھی لے آئے گا.
یہ بات بھی سمجھ لینے کی ہے کہ اُمت محمدیہؐ کی تشکیل کچھ اس طرز پر ہے کہ اس کا ایک مرکز (Nucleus) ہے جو بنی اسماعیل پر مشتمل ہے جو نبی اکرمﷺ کے اوّلین مخاطب تھے. خود نبی اکرمﷺ ان ہی میں سے تھے‘ ان ہی کی زبان بولتے ہوئے آئے. آپؐ نے اوّلاً ان ہی کو تبلیغ فرمائی‘ انہی کے اندر سے ایک اُمت تشکیل فرما دی. اس کے بعد پھر دوسری اقوام سے‘ دوسری نسلوں اور دوسرے ملکوں سے لوگ گویا تہہ در تہہ دائروں کی شکل میں اس امت میں شامل ہوتے چلے گئے. ایرانی آئے‘ تورانی آئے‘ ہندی آئے‘ بربر آئے‘ ایشیائی آئے‘ افریقی آئے. یہ سب ’’ آخرین‘‘ میں شامل ہیں. تو نبی اکرمﷺ کی بعثتیں دو ہوئیں: اوّلین بعثت اُمیین میں اور ثانوی بعثت آخرین میں.
وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ کے الفاظ پر توجہ فرمایئے‘ یہاں ’’مِنْہُمْ‘‘ معنوی مفہوم میں آیا ہے یعنی جو بھی دائرہ اسلام میں آ جائے گا‘چاہے وہ ہندی ہو‘ وہ مشرقِ بعید کا زرد رو انسان ہو‘ افریقہ کا سیاہ فام ہو‘ یورپ کا سرخ و سفید رنگ کا حامل ہو‘ یہ سب ملت کی وحدت میں گم ہوتے چلے جائیں گے‘ ایک ملت بنتی چلی جائے گی. اسی جانب اشارہ ہے ’’مِنْہُمْ‘‘ میں کہ یہ ایک ہی اُمت ہے‘ بعد میں آنے والے اسی امت کا جزو بنتے چلے جائیں گے. وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ کہ نبی اکرم کی بعثت ہوئی (۱)النساب للبلا ذری،نھج البلاغہ آخرین میں بھی اور جو ابھی ان کے ساتھ شامل نہیں ہوئے‘ ہو جائیں گے. وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳﴾ اور وہ (اللہ) العزیز ہے‘ الحکیم ہے‘‘. اس آخری اور کامل نبوت و رسالت کے بارے میں اس کی حکمت تامہ کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ آپؐ کو دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث فرمائے. وہ العزیز ہے‘ زبردست ہے‘ جو چاہے کرے‘ اور الحکیم ہے‘ اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ’’یہ اللہ کا فضل ہے ‘ دیتا ہے جس کو چاہتا ہے‘‘. وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۴﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے‘‘.