اب اگلی آیت میں یہود کا تذکرہ ہے. اور یہ بات اس سے قبل ’’المُسَبِّحات‘‘ کے تعارف کے ضمن میں اصولاً بیان کی جا چکی ہے‘جس کی ایک بڑی واضح اور نمایاں مثال سورۃ الصف میں ہمارے سامنے آ چکی ہے‘ کہ ان سورتوں میں اگرچہ اصلاً خطاب اُمت مسلمہ سے ہے‘ لیکن سابقہ اُمت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کو بطور نشانِ عبرت مسلمانوں کے سامنے لایا جاتا ہے. اب ظاہر بات ہے کہ ہر سورت میں بنی اسرائیل یعنی یہود میں اعتقادی یا عملی گمراہیوں کا وہی پہلو زیر بحث آئے گا کہ جو اس سورت کے عمود سے متعلق ہو. جہاد و قتال کا مضمون سورۃ الصف میں مذکور تھا تو وہاں اس خاص پہلو سے ان کا جو معاملہ رہا اور قتال فی سبیل اللہ سے انکار کر کے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس قدر شدید ذہنی اذیت سے دوچار کیا‘ اسے نمایاں کیا گیا کہ مسلمانو! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی اس روش کو اختیار کر لو! اب غور کیجیے کہ یہاں سورۃ الجمعہ میں ساری گفتگو قرآن مجید کے گرد گھوم رہی ہے. واضح کر دیا گیا کہ محمدٌ رسول اللہ کا آلۂ انقلاب قرآن حکیم ہے‘ مزید یہ کہ نبی اکرم صرف اُمّیین کے لیے رسول ہو کر نہیں آئے پوری نوعِ انسانی کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں.