توراۃ کے ساتھ یہود کا طرزِ عمل ایک عبرت ناک مثال

فرمایا: 
مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾ 

کہ تم سے پہلے بھی ایک اُمت حامل کتاب بنائی گئی تھی‘ تورات جیسی نعمت اسے عطا ہوئی تھی. حامل کا لفظ ’’حَمَلَ یَحْمِلُ‘‘ سے اسم الفاعل ہے. اس کا مفہوم ہے ’’بوجھ اٹھانے والا‘‘. اسی طرح’’حَمَّالٌ‘‘ کہتے ہیں بوجھ اٹھا کر لے جانے والے کو. عربی زبان میں یہ لفظ عام طور پر مزدور کے لیے مستعمل ہے‘ یعنی وہ شخص جس کا کام ہی یہ ہے کہ بوجھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے. گویا حامل کتاب الٰہی اُس قوم کو کہا جائے گا جس کے ذمے یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کو دوسروں تک پہنچائے‘ اسے پھیلائے‘ اس کی ہدایت کو عام کرے. یہ کتاب رسول کے ذریعے تم تک پہنچی ہے‘ اب اس کو پوری نوعِ انسانی تک پہنچانا تمہارے ذمے ہے. لیکن یہود نے کیا طرزِ عمل اختیار کیا: مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا ’’مثال ان لوگوں کی جو حامل تورات بنائے گئے (جو اٹھوائے گئے تورات) ‘ پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (اس کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا) کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ ’’اس گدھے کی سی (مثال) ہے جو اٹھائے ہوئے ہو کتابوں کا بوجھ!‘‘ یہاں یہود کو اس گدھے کے مثل قرار دیا گیا ہے جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہوا ہو.

عربی زبان میں سِفر اور سَفر دونوں کی جمع اَسفار آتی ہے.سفر کے معنی ہیں کتاب. چنانچہ تورات میں شامل کتابوں (یا ابواب) کے لیے یہی لفظ مستعمل ہے‘ مثلاً سِفرِ پیدائش‘ سِفرِ تقسیم (The Book of Genesis) وغیرہ.اس اعتبار سے یہاں آیت زیر نظر میں ’’اَسفار‘‘ کا لفظ اپنے اندر بڑی معنویت لیے ہوئے ہے. 

کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ یہ تمثیل بھی نہایت بلیغ ہے.گدھے کی پیٹھ پر مکالماتِ فلاطوں کی سو جلدوں کی گٹھڑی باندھ کر رکھ دیجیے‘ اس سے اس کے اندر نہ تو کوئی فلسفیانہ بصیرت پیدا ہو گی اور نہ ہی حکمت اور دانائی کی کوئی بات اسے حاصل ہو گی. یہ مثال ہے اُس قوم کی جو کتابِ الٰہی کی حامل بنائی جائے اور پھر وہ اس کا حق ادا نہ کرے‘ اس کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرے! اگرچہ یہ تمثیل ایک بار تو انسان کو چونکا دیتی ہے کہ تورات کی حامل اُمت کے لیے گدھے کی مثال! لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی نکمی شے کے اندر شناعت اور گراوٹ کا جو پہلو موجود ہوتا ہے اسے واضح کرنے کے لیے کوئی ایسی تمثیل مؤثر ہوتی ہے جس سے طبیعت میں ایک دفعہ لرزش سی پیدا ہو جائے. فصاحت اور بلاغت کا تقاضا بھی یہی ہے