آگے فرمایا: بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ’’بری ہے مثال اُس قوم کی جنہوں نے آیاتِ الٰہی کو جھٹلایا‘‘ یہاں لفظ ’’تکذیب‘‘بڑی اہمیت کا حامل ہے. تکذیب قول سے بھی ہو سکتی ہے اور عمل سے بھی. یعنی تکذیب باللسان بھی ہو سکتی ہے اور بالحال بھی. یہ بھی تکذیب ہی کی ایک صورت ہوتی اگر بنی اسرائیل زبان سے صاف کہہ دیتے کہ تورات اللہ کی کتاب نہیں ہے‘ لیکن تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے اس معنی میں تورات کی تکذیب کبھی نہیں کی. ہاں تکذیب عملی کے وہ ضرور مرتکب ہوئے. وہ تکذیب عملی کہ جس کا نقشہ بدقسمتی سے آج اُمت مسلمہ پیش کر رہی ہے کہ بجائے قرآن کو اپنا پیشوا‘ رہنما اور مشعل راہ بنانے کے اُمت کی عظیم اکثریت نے اسے طاقِ نسیاں پر رکھ چھوڑا ہے. قرآن نے اس طرزِ عمل کو تکذیب کے لفظ سے موسوم کیا ہے : بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یہ اللہ کی آیات کی تکذیب نہیں تو اور کیا ہے! زبان سے چاہے قرآن مجید پر کتنا ہی ایمان کا دعویٰ کیا جائے‘اگر قرآن مجید کو ہم نے اپنا امام نہیں بنایا‘ قرآن مجید کی رہنمائی کو عملاً اختیار نہیں کیا‘ قرآن مجید کے عطا کردہ ضابطے اور قانون کو نافذ نہیں کیا‘ اس کی تعلیمات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو استوار نہیں کیا تو گویا کہ اپنے عمل سے ہم قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں. یہ تکذیب حالی ہے.