بہرکیف یہ ہے وہ ربط و تعلق جو دوسرے رکوع کی تین آیات کا اس سورۂ مبارکہ کے عمود کے ساتھ بنتا ہے. اس دوسرے رکوع میں بعض مضامین اور بھی ہیں جو اگرچہ سورۃ کے عمود اور ربطِ کلام کے اعتبار سے ضمنی قرار پائیں گے لیکن بہرحال ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ علم و حکمت کا ایک قیمتی موتی ہے. ایک تو خطبہ جمعہ کی خصوصی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ کہ لپکو اللہ کے ذکر کی طرف! خیال رہے کہ نماز کے لیے دوڑ کر جانے سے حضورﷺ نے منع فرمایا ہے‘ یہ وقار کے منافی ہے. ورنہ یہاں لفظی ترجمہ تو یہی ہو گا کہ دوڑو اللہ کی یاد کی طرف. لیکن ہم اس سے مراد لیں گے کہ پوری مستعدی کے ساتھ ہمہ تن متوجہ ہو جاؤ.
اگلے الفاظ بھی نہایت قابل توجہ ہیں ’’ وَذَرُوا الْبَیْعَ‘‘ کاروبار ترک کر دو! ’’ وَذَرُوا‘‘ امر کا صیغہ ہے اور یہ قاعدہ سب کے علم میں ہے کہ ’’اَلْاَمْرُ لِلْوُجُوْبِ‘‘ . چنانچہ اذانِ جمعہ کے بعد کاروبارِ دنیوی مطلقاً حرام ہو جاتا ہے. تاہم یہ ذہن میں رہے کہ یہ حکم اصلاً اذانِ ثانی سے متعلق ہے‘ اس لیے کہ حضورﷺ کے زمانے میں ایک ہی اذان ہوتی تھی. دوسری اذان کا اضافہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں کیا گیا جب مدینہ منورہ نے وسعت اختیار کر لی. لہذا اس حکم کا پوری شدت کے ساتھ اطلاق تو ہو گا اذانِ ثانی کے بعد‘ لیکن تبعاً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اذانِ اولیٰ کے بعد جمعہ کی تیاری کی جانب ہمہ تن متوجہ ہو جانا اور مسجد کی طرف لپکنا اس آیت کے منشا میں شامل ہے.
اس آیت میں لفظ ’’ذکر‘‘ بھی خصوصی طور پر لائق توجہ ہے. یہاں ذکر سے مرادہے خطبہ جمعہ. جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘ خطبہ دراصل قرآن کی تعلیم ہی کا ایک ذریعہ ہے. خطیب کا کام یہ ہے کہ وہ قرآن کی آیات کے حوالے سے تذکیر کرے‘ وعظ و نصیحت کرے. اور قرآن مجید خود اپنے آپ کو ’’الذِّکر‘‘ قرار دیتا ہے. سورۃ الحجر کی اس آیت میں بھی جو کثرت سے بیان کی جاتی ہے‘ قرآن کے لیے’’الذِّکر‘‘ کالفظ آیا ہے:
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) ’’یقینا ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت فرمانے والے ہیں‘‘.