قرآن مجید میں سورۃ التوبۃ اور سورۃ الاحزاب میں منافقت اور منافقین کے بارے میں بڑے طویل مباحث آئے ہیں‘ لیکن اکثر و بیشتر قرآن کا پڑھنے والا ان پر سے یہ سمجھ کر گزر جاتا ہے کہ یہ تو صرف وہ لوگ تھے جو محض دھوکہ دینے کے لیے اہل ایمان میں داخل ہوئے تھے. حالانکہ بات صرف یہی نہیں ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی ایک نوع کا نفاق تھا‘ لیکن درحقیقت دورِ نبویؐ میں جو نفاق پیدا ہوا اس کا اصل سبب اعراض عن الجہاد تھا‘ یعنی جان و مال کے کھپانے سے کنی کترانا. ایمان محبوب ہے لیکن کفر سے بھی مفادات وابستہ ہیں‘ آخرت بھی مطلوب ہے‘ لیکن دنیا بھی ہاتھ سے دینے کو تیار نہیں. تو یہ دو کشتیوں کی سواری درحقیقت نفاق کی بنیاد ہے. اگر بات وہ ہے کہ ع ’’ہرچہ بادا باد درآب انداختیم‘‘ تو یہ ہے صدقہ‘ یہ ہے سچا ایمان. ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ الفاظ ہم نے پڑھے ہیں کہ : اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ اور رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ اس کے برعکس اپنے اس عہد میں جھوٹا ہونا‘ اس میں پیچھے قدم ہٹانا ہی دراصل کذب اور نفاق ہے.

معنی کے پس منظر میں بھی دیکھا جائے تو نفاق کی اصل جڑ اور بنیاد درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ سے کنی کترانا ہے.