لفظ کذب کے حوالے سے نفاق کے ضمن میں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ نبی اکرم نے منافق کی جو علامتیں بیان فرمائی ہیں ان میں کذب کو سرفہرست رکھا ہے. آپؐ نے فرمایا: 

آیَـۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اوْتُمِنَّ خَانَ 
’’منافق کی تین نشانیاں ایسی ہیں : (۱) جب بات کرے جھوٹ بولے. (۲)جب وعدہ کرے خلاف ورزی کرے اور (۳) جب اس کے پاس کوئی چیز بطور امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے‘‘.

یہاں چونکہ معاملہ اس نوع کے نفاق کا نہیں ہے جو ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے کہ منافق تو اسے کہتے ہیں جس نے مسلمانوں اور اسلام کو زک پہنچانے کے لیے سازش کے طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھا ہو‘ لہٰذا اس حدیث کی تشریح میں بالعموم علماء کرام نفاق کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں کہ ایک ہے نفاقِ اعتقادی اور دوسرا نفاقِ عملی. ان کی توجیہہ کے مطابق اس حدیث میں نفاقِ عملی کا تذکرہ ہے‘ نفاقِ اعتقادی کا نہیں. بہرکیف اس بحث سے قطع نظر نبی اکرم کا فرمان یہ ہے کہ یہ تین اوصاف وہ ہیں کہ جو اگر کسی کی طبیعت میں راسخ ہو جائیں تو وہ پکا منافق ہے. ہاں اگر کبھی کسی وقت جھوٹ کا ارتکاب ہو جائے یا کبھی کسی وقت وعدہ خلافی ہو جائے تو یہ چیز نفاق کے ذیل میں نہیں آئے گی.

یہ مضمون ایک اور متفق علیہ حدیث میں اس سے بھی زیادہ مؤکدہ شکل میں آیا ہے. نبی اکرم فرماتے ہیں: 
اَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا کہ چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس کسی میں وہ چاروں موجود ہوں تو وہ شخص منافق ہے‘ پکا اور کٹر منافق! ایک روایت میں یہ اضافی الفاظ بھی آئے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّـہٗ مُسْلِمٌ ’’خواہ وہ شخص روزہ رکھتا ہو‘ خواہ نماز پڑھتا ہو اور خواہ اسے خود بھی یہ زعم ہو اور وہ یہ خیال کرتا ہو کہ میں مسلمان ہوں. لیکن اگر یہ چاروں وصف اس میں موجود ہیں تو وہ پکا منافق ہے. اس حدیث میں ان تین باتوں کے علاوہ جن کا ذکر پچھلی حدیث میں تھا‘ چوتھی چیز آپؐ نے یہ گنوائی : وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ کہ جب کہیں کوئی جھگڑا ہو تو وہ آپے سے باہر ہو جائے‘ نہ زبان پر کنٹرول رہے نہ جذبات پر.یہ چوتھا وصف یا چوتھی علامت ہے منافق کی. حضور نے اس حدیث میں مزید وضاحت فرمائی کہ جس میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہیں وہ تو کٹر منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک وصف پایا جاتا ہے اس میں اسی مناسبت سے نفاق موجود ہے. یہ ہے نفاق کی حقیقت ازروئے قرآن و حدیث!