یہاں لفظ ’’کذب‘‘ خاص طور پر لائق توجہ ہے. جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ کذب ہی درحقیقت نفاق کا نقطۂ آغاز ہے. چنانچہ سورۃ المنافقون کی پہلی ہی آیت میں اس کی نشاندہی ہو گئی. ابتداء میں تو یہ کذب سادہ سے جھوٹ کی صورت میں ہوتا ہے‘ لیکن آگے بڑھ کر جب یہ مرض دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو پھر یہ جھوٹی قسموں کی شکل اختیار کرتا ہے. چنانچہ دوسری آیت میں دیکھئے قسموں کا ذکر آ گیا. فرمایا: اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃ... ’’انہو ں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے‘‘.یمین داہنے ہاتھ کو بھی کہتے ہیں. اور چونکہ قسم کھاتے ہوئے اور قول و قرار کے موقع پر داہنا ہاتھ اٹھانے کی ایک روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے‘ لہٰذا قسم کو بھی یمین سے تعبیر کیا جاتاہے. یہاں یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے. ان منافقوں نے اپنی قسموں کو اپنے لیے ڈھال بنا لیا ہے. اگر آپ ان سے پُرسش کریں‘ کوئی پوچھ گچھ کریں یا ان کو کہیں بھی کسی معاملے میں اپنے موقف کی وضاحت کرنی پڑے تو فوراً قسموں کو اپنی ڈھال کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ہے‘ اللہ گواہ ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ درست ہے! اپنی قسموں کو ڈھال بنانے کا نتیجہ یہ ہے کہ اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃ صَدَّ یَصُدُّ عربی زبان میں لازم اور متعدی دونوں معنی دیتا ہے.یہاں مفہوم یہ ہو گا کہ پس یہ خود بھی رک گئے ہیں اللہ کے راستے سے اور دوسروں کو بھی روکنے کا سبب بن گئے ہیں. ظاہر بات ہے کہ ہر فرد اپنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے دوسروں کے لیے نمونہ بنتا ہے. وہ یا تو خیر کی تشویق و ترغیب کا سبب بنے گا‘ یا دوسروں کے لیے شر کا راستہ کھولے گا اور نمونۂ شر بنے گا. اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲﴾ ’’واقعہ یہ ہے کہ بہت ہی بُرا طرزِ عمل ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے‘‘. یعنی انجامِ کار کے اعتبارسے یہ بہت ہی بری روش ہے. دنیا میں تو شاید وقتی طور پر انہیں یہ محسوس ہوتا ہو کہ ہم نے اپنے اس طرزِ عمل کی بدولت جان و مال کا تحفظ کر لیا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انجامِ کار کے اعتبار سے بہت ہی غلط طرزِ عمل ہے جو انہوں نے اختیار کیا.