اگلی آیت میں اس حسرت ناک انجام اور محرومی کا نقشہ کھینچاگیا ہے جو منافقین کا مقدر ہے. فرمایا: سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ کہ اے نبی! ان منافقین کے لیے برابر ہے کہ آپؐ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں‘ اللہ انہیںہرگز معاف نہیں کرے گا. گویا کہ آپؐ کا استغفار بھی ان بدبختوں کے حق میں مفید نہیں ہے. اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں یہ مضمون سورۃ التوبۃ میں دہرایا گیا ہے. وہاں اضافی طور پر فرمایا: اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ْ کہ اگر آپؐ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار فرمائیں گے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا. یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ منافقین کے بیان میں یہاں وہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو سورۃ البقرۃ کے پہلے رکوع میں پکے اور کٹر کافروں کے لیے ملتا ہے. وہ کھلے کافر جو کفر کی آخری حدوں کو پہنچ چکے تھے‘ جن کے لیےخَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِم کے فیصلے کا اعلان ہوا‘ان کے بارے میں سورۃ البقرۃ میں یہی الفاظ آتے ہیں: سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶﴾ کہ ان کافروں کے حق میں بالکل برابر ہو چکا ہے خواہ آپؐ انہیں خبردار فرمائیں خواہ نہ فرمائیں‘ اب یہ ایمان لانے والے نہیں. وہی بات یہاں منافقین کے بارے میں فرمائی گئی. گویا منافقین کا شمار اگرچہ دنیا میں مسلمانوں ہی میں ہوتا ہے لیکن ان کا انجام بدترین کافروں کے ساتھ ہو گا.

آیت کے آخری ٹکڑے میں اسی قاعدہ کلیہ کو دہرایا گیا جو اس سے پہلے سورۃ الصف میں بھی بیان ہوا ہے : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۶﴾ ’’یقینا اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا‘‘ یہ بات اس کی سنت اور اس کے ضابطے کے خلاف ہے کہ وہ کسی کو زبردستی راہِ ہدایت پر لے آئے.زبردستی ہدایت دینی ہوتی تو پھر کون ہوتا جو ہدایت سے محروم رہ جاتا. پھر تو ابوجہل اور ابولہب بھی ہدایت سے محروم نہ رہتے. اللہ تو ہدایت انہی کو دیتا ہے جو ہدایت کے جویا ہوں‘ جو ہدایت کے طالب اور متلاشی ہوں‘ جو ہدایت اختیار کرنے کا فی الواقعہ ارادہ رکھتے ہوں. جو لوگ دیدہ دانستہ فسق و فجور کے راستہ پر چل رہے ہوں انہیں زبردستی ہدایت دینا اللہ کا طریقہ نہیں!

اگلی دو آیات میں عبداللہ بن اُبی کا وہ قول نقل کیا گیا جس سے اس کا خبثِ باطن جھلکتا تھا. اس طرح گویا تصدیق ہو گئی حضرت زید بن ارقمؓ کی کہ انہوں نے عبداللہ بن اُبی پر جو الزام لگایا تھا وہ غلط نہیں تھا. فرمایا: ہُمُ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰی مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنۡفَضُّوۡا ’’یہی وہ لوگ ہیں کہ جو کہتے ہیں مت خرچ کرو اُن پر جو اللہ کے رسول کے ساتھ ہیں‘ یہاں تک کہ منتشر ہو جائیں!‘‘ یہ لوگ تمہارے چندوں اور تمہارے صدقات پر پل رہے ہیں. یہ ساری ہمہ ہمی اور ساری شورا شوری درحقیقت تمہارے اس ایثار اور اس انفاق کی بنیاد پر ہے. تم اگر ہاتھ روک لو تو یہ سب چلتے پھرتے نظر آئیں گے ‘یہ بھیڑ چھٹ جائے گی . جواباً فرمایا: وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡض ’’حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں‘‘. یعنی یہ ان کی نری خام خیالی ہے کہ مہاجرین کو رزق وہ فراہم کرتے ہیں‘ لیکن ان منافقین کو کون سمجھائے وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۷﴾ یہ بات اس سے پہلے آیت ۳ کے ذیل میں بھی گزر چکی ہے کہ یہ لوگ فہم و شعور سے عاری ہو چکے ہیں. ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۳﴾ اگلی آیت میں بھی عبداللہ بن اُبی ہی کا ایک قول نقل ہوا ہے . فرمایا: یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ’’انہوں نے کہا کہ اگر اس دفعہ ہم مدینہ لوٹ گئے (یعنی اگر ہم بخیر و عافیت واپس پہنچ گئے) تو یہ بات طے شدہ سمجھو کہ عزت دار لوگ (مراد ہے اہل مدینہ یعنی اوس و خزرج) ان بے وقعت لوگوں کو (یعنی مہاجرین مکہ) کو نکال باہر کریں گے‘‘. یہ روز روز کا جھگڑا اسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے کہ مدینہ کے باعزت باشندے اپنی سرزمین سے ان لٹے پٹے مہاجرین کو بے دخل کر دیں. اس گستاخی اور جسارت پر سرزنش کے انداز میں فرمایا: وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ لٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۸﴾ ’’حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ عزت تو کُل کی کل اللہ کے لیے ہے‘ اس کے رسول کے لیے ہے اور اہل ایمان کے لیے ہے‘ لیکن منافقین کو اس کا علم نہیں ہے‘‘. وہ اپنی نادانی میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ عزت دار وہ خود ہیں‘ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے.

یہاں اس سورئہ مبارکہ کا پہلا رکوع ختم ہوتا ہے. اس میں گویا کہ مرضِ نفاق‘ اس کی علامات‘ اس کا نقطۂ آغاز‘ اس کا سبب‘ اس کے مختلف مراتب و مدارج ‘ اس کی ہلاکت خیزی‘ یہ تمام چیزیں زیربحث آ گئی .

دوسرے رکوع کی تین آیات میں ایک عجیب ترتیب نظر آتی ہے. جس طرح کہ طب میں ایک مرض کے علاج کی شکلیں ہیں. ایک حفاظتی 
(Preventive) قسم کاعلاج ہے اور دوسرا معالجاتی (Curative) طرز کا. یعنی ایک تو وہ تدابیر ہیں کہ جن سے اس مرض کی چھوت سے بچا جا سکے. اور دوسرے یہ کہ اگر وہ مرض لاحق ہو جائے‘ اس کی چھوت لگ جائے تو پھر اس کا مداوا اور اس کا چھٹکارا حاصل کرنے کی تدابیر کی جاتی ہیں. یہاں دیکھئے کہ مرضِ نفاق کے علاج کے ضمن میں یہ دونوں پہلو سامنے آ رہے ہیں.