شرائط نجات میں سے آخری شرط صبرومصابرت

سورۃ العصر میں بیان کردہ شرائط ِنجات میں سے آخری شرط صبر و مصابرت سورئہ آل عمران کی آخری آیت کی روشنی میں

نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ۟ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۲۰۰﴾٪ (الِ عمران) 
مطالعۂ قرآن حکیم کے جس منتخب نصاب کا سلسلہ وار درس ان مجالس میں ہو رہا ہے اس کا پانچواں حصّہ مباحث ِ صبر و مصابرت پرمشتمل ہے . اس کے لئے ایک نہایت جامع اور موزوں عنوان کے طور پر سورئہ آل عمران کی آخری آیت کا انتخاب کیاگیا ہے. اس آیۂ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے:

’’اے ایمان والو! صبر کی روش اختیار کرو اور صبر کے معاملے میں (اپنے مخالفین اور اپنے دشمنوں پر) بازی لے جائو اور (ہر جانب سے چوکس اور چوکنے رہ کر) حفاظت کر و اوراللہ کاتقو یٰ اختیار کرو تاکہ تم فلاح پائو . ‘‘

اس آیۂ مبارکہ کا اختتام ’’فلاح‘‘ کے لفظ پر ہوا اور یہاں فلاح کا ذکر مؤمن کے اصل مقصودکی حیثیت سے آیا ہے. فلاح کے معنی اور مفہوم پر اس سے پہلے اس منتخب نصاب میں سورۂ مؤمنون کی پہلی آیت قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ کے حوالے سے مفصل گفتگوہو چکی ہے.یہاں سب سے پہلے تقویٰ کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے . تقویٰ قرآن حکیم کی ایک نہایت جامع اصطلاح ہے . تقویٰ کامادہ’’و‘ ق‘ ی‘ ‘ہے . اس کالغوی مفہوم ہے :بچنا.سوال یہ ہے کہ کس شے سے بچنا ؟مراد ہے کہ اس دنیا میںاللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنا‘ آخرت میںاللہ کے غضب اور اس کی سزا سے بچنا . گویا تقویٰ پورے دینی عمل کے لئے یا سلوک ِقرآنی کے لئے ایک مستقل روح کی حیثیت رکھتا ہے . جس طرح دنیا میں ہم ع ’’ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں‘‘کے مصداق بہتری کے حصول کی کوشش کرتے ہیں‘ دین میں بھی خوب ترکی طرف پیش قدمی کرنا ہمارامقصودِ حیات ہونا چاہئے . اسی لئے فرمایا: فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ؃ کہ نیکیوں میں‘ خیر میں‘بھلائی میں‘ایمان میں‘عمل صالح میںمسلسل ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہو. اس کے لئے جو قو ّت محرکہ درکار ہوسکتی ہے‘ قرآن اسے لفظ ِتقویٰ سے تعبیر کرتا ہے .

اس ضمن میں سورۃالمائدۃ کی آیت ۹۳ بہت اہم ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کے علمی وعملی ارتقاء کادارومدار روحِ تقویٰ پر منحصر ہے.فرمایا:

لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ 

کہ جب کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت کاپور اضابطہ بیان ہوگیاتوکچھ مسلمانوں کے دل میںایک تشویش سی پیدا ہوئی کہ جو چیزیں ہم پہلے استعمال کر چکے ہیں‘ایسا تو نہیں کہ ان ناجائز چیزوں کے اثرات ہمارے وجود میںباقی رہ جائیں اور وہ ہمارے اعمالِ صالحہ پر اثرانداز ہوں ! ان کی اس تشویش کے ازالے کے لئے فرمایا کہ اہل ایمان نے اس سے پہلے جو کچھ کھایا یاپیا ہے اس کی ان سے کوئی باز پُرس نہیں‘اس سے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا‘ جبکہ انہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی.اس کو اگلے جملے میں یوں بیان فرمایا: اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کہ جب انہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی‘ ایمان لائے اور نیک عمل کئے . ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا پھر مزید تقویٰ ان میں پیدا ہوا‘اور انہیں ایمان میں مزید ترقی حاصل ہوئی … یہاں ایمان کے دومراتب یامدارج کی جانب اشارہ فرمایا.ایک ایمان کااوّلین یا ابتدائی مرحلہ ہے جس میں عمل صالح کا ذکر ایک جداگانہ entity کی حیثیت سے کیاگیا ہے اور دوسرا ایمان کا اس سے برتر اور اعلیٰ مرتبہ ہے جہاں عمل اور ایمان ایک وحد ت کی صورت ا ختیار کرلیتے ہیں‘ لہٰذا پھر عمل کے دوبارہ ذکر کی ضرورت باقی نہیں رہتی . مزیدفرمایا: ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا پھر ان میں تقویٰ اور بڑھا اورنتیجتاًوہ درجۂ احسان پر فائز ہوگئے .اور یہ تقویٰ کی معراج ہے . وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتا ہے.‘‘تو سورئہ آل عمران کی اس آخری آیت کے آخری حصے وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۲۰۰﴾٪ میں تو گویا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوگیا‘اب ا س کے پہلے ٹکڑے پر توجہ مرتکز کیجئے جو منتخب نصاب میں ہمارے آج کے موضوع کے اعتبار سے اہم تر ٹکڑا ہے. 

فرمایا: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا آیت کے اس حصّے میں’’صبر‘‘ ہی سے دو فعل امر وارد ہوئے ہیں‘ دو حکم ہیں کہ جومسلمانوں کو دیئے گئے . ایک ’’اِصْبِرُوْا‘‘یعنی صبر کرواور دوسرے ’’صَابِرُوْا‘‘.یہاں یہ ’’بابِ مفاعلہ‘‘سے صیغۂ امر ہے . جس طرح اس باب میں قتل سے ’’مقاتلہ‘‘اور جہد سے ’’مجاہدہ‘‘کے مصادر آتے ہیں اسی طرح صبر سے مصدر ہوگا’’مصابرہ‘‘.صبر ایک یک طرفہ عمل ہے. صبر کے معنی ہیں اپنے آپ کو روک کر رکھنا‘ تھام کر رکھنا اور اس کے دو پہلو ہیں . ایک یہ کہ اپنی منزل ا ور اپنے ہدف کے تعین کے بعد انسان پوری ثابت قدمی سے اس کی طرف پیش قدمی جاری ر کھے.کوئی مخالفت‘ کوئی رکاوٹ‘کوئی تشدد‘ اسے اپنے مقصد اور اپنی منزلِ مقصود کی جانب پیش قدمی سے روک نہ سکے . اور دوسرا پہلو یہ کہ کوئی طمع‘ کوئی لالچ‘یاکسی اعتبار سے مرغوباتِ نفس کی کوئی کشش بھی اس کی راہ میںحائل نہ ہونے پائے . یہ دونوں پہلو ’’صبر‘‘میں مضمر ہی.