ذہن میں تازہ کرلیجئے کہ منتخب نصاب کا پہلا حصّہ چار جامع اسباق پر مشتمل تھا اور ان چاروں اسباق میںچوٹی کی چیز اور آخری منزل صبر ہی کی تھی.سورۃ العصر کی طرف آئیے‘ سورۃ کا اختتام’’صبر‘‘ ہی کے لفظ پر ہوا :

وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾ 
آیۂ بر کو دیکھئے‘ نیکی اور تقویٰ کا نقطۂ عروج 
(climax) وہاں کن الفاظ میں بیان ہوا: وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ .اگلے سبق یعنی سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع پر نگاہ ڈالئے‘ آیت ۱۷میں صبر کا ذکر موجود ہے : یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ َ .سورئہ حٰم السجدۃ کی آیات ۳۰ تا ۳۶پر توجہ کو مرکوز کیجئے‘ وہاں بھی صبر کا ذکر بڑے اہتمام سے ہوا: وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ ﴿۳۵﴾ ان چاروں جامع اسباق میں جس بلند ترین اور آخری منزل کی نشان دہی کی گئی وہ صبر ہی ہے. ان چاروں مقامات میں صبر کا وہ پہلو زیادہ پیش نظر ہے جس سے انسان اس وقت دوچار ہوتاہے جب وہ تواصی بالحق‘ دعوت الی اللہ اور’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘کا فریضہ سر انجام دے رہا ہو . ظاہر بات ہے کہ حق کی بات کہنی ہے تو طبیعت میں سہار اور تحمل کا ہونا ضروری ہے . اس لئے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ’’اَلْحَقُّ مُرٌّ‘‘یعنی سچ کڑوا ہوتا ہے . سچائی عام طور پر قابل قبول نہیںہوتی . لہٰذا تکالیف آئیں گی‘ ان کو جھیلنے کے لئے صبر کابھر پور مادہ ہونا چاہئے . پہلے سے تیار ہو جائو کہ یہ راستہ پُر خار ہے‘ اس میں مخالفتوں کے کانٹے بچھے ہوئے ہیں‘ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے. اس کے بارے میں سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع میں ہم یہ پڑھ آئے ہیں : اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾ِ کہ یہ کام بڑی ہمت کے متقاضی ہیں . 

اس کے بعدعمل صالح کی تفاصیل پر مشتمل جو حصّہ سوم ہمارے اس منتخب نصاب میں آیا وہاں سورۃ الفرقان میں لفظ صبر ایک دوسری شان کے ساتھ وارد ہوا تھا. فرمایا: اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا ’’یہ ہیں وہ لوگ جن کو جنت کے بالا خانے عطا کئے جائیں گے اس صبر کے عوض جو انہوں نے کیا‘‘ … یہاں لفظ صبر درحقیقت انسانی شخصیت اوراس کی سیرت وکردار کے ایک نہایت ہمہ گیر پہلو کی طرف اشارہ کررہا ہے . مطلب یہ ہے کہ ایمان پر کاربند رہنا بھی ممکن نہیں جب تک کہ صبر نہ ہو‘عمل صالح کے بنیادی تقاضے بھی پورے نہیںہو سکتے جب تک انسان میں صبر کا مادہ نہ ہو . اپنے جذبات کو تھامنا بھی صبر ہی سے ممکن ہوتا ہے اور خواہشات کی لگامیں بھی صبر ہی کے ذریعے کھینچی جاسکتی ہیں . سوۃالنازعات کی آیت : وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ میں صبر ہی کا تو بیان ہے کہ خواہشات کو دبانا‘ شہوات کو لگام دینا اور مرغوبات ِنفس کے حصول کے لئے طبیعت میں جوطوفان بپا ہے اس کو روک کر رکھنا ہوگا‘ تبھی ایمان پر گامزن رہنا اور عملِ صالح کے ابتدائی تقاضے پورے کرنا ممکن ہوگا ‘تبھی اس راہ میںآگے قدم بڑھانے کاامکان‘ہوگا. پھر جب احقاقِ حق اور ابطالِ باطل‘ یا بالفاظ دیگر اعلائِ کلمۃ اللہ اور غلبۂ دین کی جدوجہد کا مرحلہ آتاہے تو ظاہر بات ہے یہاں نمایاں ترین وصف صبر اور مصابرت ہی کاہے . 

اسی مفہوم کی تائید سورئہ مؤمنون میں ا س طرح سے ہوتی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان کا فروں سے جو دنیا میں حق کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہے‘ یہ فرمائیں گے : اِنِّیۡ جَزَیۡتُہُمُ الۡیَوۡمَ بِمَا صَبَرُوۡۤا کہ یہ لوگ جن کا تم دنیا میں استہزا ء اور تمسخر کرتے رہے‘ جن کی عملی جدوجہد میں تم رکاوٹ بنتے رہے‘ جنہیں کمزور دیکھ کر تم نے دبائے رکھا اور وہ کمالِ ہمت وبردباری سے صبر کادامن تھامے رہے‘ دیکھو آج اس صبر کی بدولت مَیں انہیں کیسا عمدہ بدلہ د ے رہا ہوں‘ کیااعلیٰ مقامات انہیں حاصل ہورہے ہیں !! حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں صبرکاذکر اس طور سے کیا گیا ہے کہ سلوکِ قرآنی میں صبر بنیادی اور لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے اور صراط ِ مستقیم کا ہر ہر مرحلہ صبر ہی کے ذریعے طے پاتا ہے . اس پورے عمل کی روحِ رواں‘ اس کے جذبۂ محرکہ‘ اور اس کی شرطِ ناگزیر کے طور پر صبرہی کا ذکر ہوتاہے . اب آئیے اس پہلو سے جائزہ لیں کہ ترتیب ِ نزولی کے اعتبار سے قرآن مجید میں صبر کا ذکر کس طور سے آیاہے!.