اہل ایمان کے لئے ابتلاء و امتحان سے گزرنا لازمی ہے!

سورۃ العنکبوت کے پہلے رکوع کی روشنی میں

نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 



الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ اَنۡ یَّسۡبِقُوۡنَا ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ ﴿۴﴾مَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ؕ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۵﴾وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶﴾وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۷﴾وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا ؕ وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡہُمَا ؕ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸﴾وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۹﴾وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ؕ وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ ؕ اَوَ لَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِمَا فِیۡ صُدُوۡرِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰﴾وَ لَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ﴿۱۱﴾وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲﴾وَ لَیَحۡمِلُنَّ اَثۡقَالَہُمۡ وَ اَثۡقَالًا مَّعَ اَثۡقَالِہِمۡ ۫ وَ لَیُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ﴿٪۱۳﴾ … ج ان آیات مبارکہ کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

’’الم‘ کیا لوگوں نے یہ خیال کیا تھا کہ وہ محض یہ کہہ کر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا. درآنحالیکہ ہم نے آزمایا ہے اُن کو جو اِن سے پہلے تھے‘ پس اللہ ضرور ظاہر کرے گا سچے ایمان والوں کو اور انہیں بھی ظاہر کر دے گا جو (اپنے دعوائے ایمان میں) جھوٹے ہیں.کیا برے عمل کرنے والوں کا یہ گمان ہے کہ وہ ہماری گرفت سے بچ نکلیں گے؟ بہت ہی بری رائے ہے جو انہوں نے قائم کی ہے. جو کوئی بھی اللہ سے ملاقات کا امیدوار ہے اسے جان لینا چاہئے کہ اللہ کامقرر کردہ وقت آ کر رہے گا اور وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے. اور جو کوئی جہاد کرتا ہے تو وہ اپنی جان (کی بھلائی) کے لئے ہی جہاد کرتا ہے. یقینا اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے. اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ہم لازماً دور کر دیں گے ان سے ان کی برائیاں اور ہم لازماً انہیں ان کے اعمال کی بہترین جزا دیں گے. اور ہم نے انسان کو وصیت کی والدین سے بھلائی اور حسن سلوک کی. (لیکن) اگر وہ تجھ سے جھگڑیں (اور مجبور کریں) کہ تُو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کے لئے تیرے پاس کوئی علم نہیں ہے تو ان کا کہا مت مان. میری ہی طرف تم سب کو لوٹنا ہے‘ پھر میں تمہیں جتلا دوں گا جو کچھ کہ تم کرتے رہے تھے. اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ہم ضرور داخل کریں گے انہیں صالحین میں. اور لوگوں میں سے کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن اللہ کی راہ میں جب انہیں تکلیف پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی طرف سے ڈالی ہوئی اس آزمائش سے یوں گھبرا اٹھتے ہیں جیسے اللہ کے عذاب سے گھبرانا چاہئے. اور اگر آ جائے مدد تیرے ربّ کی طرف سے تو وہ لازماً یہ کہیں گے کہ ہم بھی تمہارے ہی ساتھ تھے. تو کیا اللہ نہیں جانتا جو کچھ لوگوں کے سینوں میں چھپا ہے . اور اللہ تو لازماً ظاہر کر دے گا ان کو جو واقعتا مؤمن ہیں اور واضح کر دے گا ان کو کہ جو حقیقتاً منافق ہیں. اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ کہتے ہیں ایمان والوں سے کہ ہماری پیروی کرتے رہو اور ہم تمہاری خطائوں کا بوجھ اٹھا لیں گے. حالانکہ وہ نہیں ہیں اٹھانے والے ان کی خطائوں میں سے کچھ بھی. یقینا وہ جھوٹے ہیں. اور وہ لازماً اٹھائیں گے اپنے بوجھ بھی اور اپنے ان بوجھوں کے ساتھ کچھ مزید بوجھ بھی. اور ان سے لازماً باز پرس ہو گی قیامت کے دن اس جھوٹ کے بارے میں جو وہ باندھ رہے تھے.‘‘

یہ ہے ان آیات مبارکہ کا ترجمہ. ابتداء سے محسوس ہو رہا ہے کہ اندازِ کلام کچھ تیکھا ہے. اس کے پس منظر کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے . ایک حدیث اس کی بڑی صحیح وضاحت کرتی ہے.