اگلی آیت میں ایک بار پھر ہمت بندھانے کا انداز ہے. چنانچہ اہل ایمان کی تسلی‘ تشفی اور قلبی اطمینان کے لئے فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۷﴾ 

کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے ان سے ہمارا پختہ وعدہ ہے کہ ہم لازماً ان سے ان کی برائیوں کو دور کر دیں گے اور ہم لازماً ان کے اعمال کا بہترین بدلہ انہیں عطا کریں گے. 

نوٹ فرما لیجئے کہ یہاں ایمان کے ساتھ 
’’عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ‘‘ اسی طرح جڑا ہوا آرہا ہے جیسے کہ ہمارے پہلے سبق یعنی سورۃ العصر میں تھا: وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ..... اگر ایمان ہے اور عمل صالح نہیں ہے ‘بلکہ ایمان کا بھی صرف اقرار باللسان والا پہلو ہو یعنی صرف قانونی ایمان موجود ہو تو اس کا فائدہ بس اتنا ہی ہو گا کہ دنیا میں مسلمان سمجھ لئے جاؤ گے لیکن اللہ کے ہاں کسی کا واقعتا مؤمن قرار پانا کچھ اور شرائط کے ساتھ مشروط ہے. ہاں وہ ایمان اگر یقین بن کر دل میں جاگزیں ہو گیا ہو اور اس کے عملی تقاضے انسان پورے کر رہا ہو تب اللہ کا پختہ وعدہ ہے کہ : لَنُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۷﴾ انتہائی تاکیدی انداز ہے کہ ایسے لوگوں سے ہم ان کی برائیوں کو لازماً دور کر دیں گے اور ان کی محنت و کاوش کا بھرپور صلہ انہیں عطا فرمائیں گے. 
یہ مضمون تقریباً انہی الفاظ میں سورئہ آل عمران کے آخری رکوع کی آیات میں بھی آ چکا ہے: 

فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ 
’’پس وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور وہ اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور انہیں میری راہ میں تکالیف پہنچائی گئیں اور انہوں نے قتال کیا اور جان قربان کردی‘ میں لازماً دور کر دوں گا ان سے ان کی برائیوں کو. (ا ن کے نامۂ اعمال کے دھبے بھی دھو دوں گا اور ان کے دامن کردار کے داغ بھی صاف کر دوں گا) اور میں انہیں لازماً داخل کروں گا ان باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی. ‘‘