فرمایا : وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا ؕ..... کہ اے نوجوانو‘ تمہاری فطرت کا یہ اقتضاء غلط نہیں ہے کہ والدین کا ادب و لحاظ ہونا چاہئے‘ یہ چیز ہم نے خود فطرتِ انسانی میں ودیعت کی ہے. ہم ہی نے تاکید کی ہے انسان کو کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے‘ ان کا ادب و احترام کرے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے. یہ مضمون اس منتخب نصاب میں اس سے قبل سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں آ چکا ہے. لیکن آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید میں مضامین کا تکرار و اعادہ کے ساتھ آنا بغیر کسی حکمت کے نہیں ہوتا. وہاں سورۂ لقمان میں حقوق کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی کہ انسان پر سب سے پہلا اور سب سے مقدم حق اللہ کا ہے یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اس کے بعد والدین کا نمبر آتا ہے. گویا اللہ کے بعد سب سے بڑا حق انسان پر اپنے والدین کا ہے. تو وہاں یہ بحث اس حوالے سے آئی تھی کہ اگر کسی معاملے میں اللہ کا حق اور والدین کے حقوق ٹکرانے لگیں تو صحیح قابل عمل صورت کیا ہو گی!… یہاں سورۃ العنکبوت میں معاملہ زیرِ بحث ہے کہ ایمان لانے والوں کو کن کن مسائل اور کون کون سے مخمصوں سے سابقہ پیش آتا ہے. نوجوانوں کے لئے چونکہ بالخصوص یہ مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ ان کے والدین انہیں شرک کرنے پر مجبور کرتے تھے لہذا اس مضمون کا یہاں پھر اعادہ کر دیا گیا. فرمایا: 

وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡہُمَا ؕ 
یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے لیکن ہر شے کی ایک حد ہوتی ہے. ہر صاحبِ حق پر کوئی اور صاحبِ حق موجود ہے‘ اور تمام حقوق میں فائق ترین حق اللہ کا ہے. والدین کا حق مسلّم‘ لیکن ’’اگر وہ تم سے جھگڑیں (اور مجبور کریں) اس بات پر کہ تم میرے ساتھ کسی ایسی ہستی کو شریک ٹھہراؤ جس کے بارے میں تمہیں کوئی علم حاصل نہیں‘ تو ان دونوں کا کہا مت مانو!‘‘

یہاں نوٹ کیجئے کہ لفظ جہاد مشرک والدین کے لئے استعمال ہو رہا ہے. ان کی یہ کوشش یعنی شرک کے حق میں اپنا دباؤ استعمال کرنا‘ یہ سب ان کا مجاہدہ ہے اور اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مجاہدہ فی سبیل الشرک ہے‘ یا یوں کہئے کہ فی سبیل الطاغوت یا فی سبیل الشیطان ہے!… تو اگر تمہارے والدین تمہیں شرک پر مجبور کر رہے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے حقوق سے تجاوز کر رہے ہیں‘ لہذا ان کا کہنا مت مانو!… مزید فرمایا: 
اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸﴾ 

’’میری ہی طرف تم سب کو لوٹنا ہے اور پھر میں تمہیں جتلا دوں گا (کھول کھول کر سامنے رکھ دوں گا) جو کچھ کہ تم کرتے رہے تھے.‘‘

معلوم ہوا کہ ایک تو اس طرح اس نہایت اہم مسئلے کا حل اللہ تعالیٰ نے پیش فرما دیا جو اہل ایمان میں سے نوجوان طبقہ کو درپیش تھا اور اس طرح ان کی ذہنی الجھن دور ہوئی.