ہر انقلابی دعوت اور انقلابی جدوجہد میں تین کردار بالکل نمایاں طور پر ہوتے ہیں. ایک وہ جو اِس دعوت کو ہر چہ بادا باد کی شان کے ساتھ قبول کرتے ہیں.

ع ’’ہرچہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم‘‘
کہ اب جو ہو سو ہو‘ ہم نے کشتی پانی میں ڈال دی ہے ‘ اب یہ تیرے گی تو ہم تیریں گے اور یہ ڈوبے گی تو ہم بھی ساتھ ہی ڈوبیں گے. یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس انقلابی جدوجہد اور اس کے مقصد
(cause) کے ساتھ ذہناً اور عملاً پورے طور پر وابستہ ہوتے ہیں.دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس نظامِ کہنہ اور نظامِ باطل کو بچانے کے لئے میدان میںآتے ہیں اور کھلم کھلا مقابلہ کرتے ہیں. وہ اپنے آپ کو پورے طور پر اس باطل نظام کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں اور اس کے حمایتی بن کر کھڑے ہوتے ہیں کہ جو پہلے سے قائم ہے. یہ دونوں قسم کے لوگ ایک دوسرے کے مدمقابل آتے ہیں اور اس طرح کشمکش و کشاکش کا آغاز ہو جاتا ہے. اسی کا نام مجاہدہ ہے اور اس کشاکش میں بالعموم جنگ و قتال کی نوبت بھی آتی ہے. ایک تیسرا عنصر درمیان درمیان میں رہتا ہے. وہ اس فیصلہ کن انداز میں بازی کھیلنے کا قائل ہی نہیں‘ اس لئے کہ اسے ہر حال میں اپنے مفادات عزیز ہیں. قرآن حکیم میں ایسے شخص کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا : لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ کہ نہ وہ اِدھر اپنے آپ کو وابستہ اور identify کرنے پر آمادہ ہے‘ نہ اُدھر یکسو ہو کر ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہے بلکہ وہ ان کے بین بین رہنے کی کوشش کرتا ہے. وہ اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے. اس کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ دونوں پارٹیوں کے ساتھ روابط رکھے تاکہ جس کسی کو بھی فتح نصیب ہو وہ ان کے پاس جا کر اپنی وفاداری یا اپنی سابقہ خدمات کا حوالہ دے کر اپنے لئے تحفظات اور مراعات حاصل کر سکے. یہ ہے وہ منافقانہ کردار جس کو خوب اچھی طرح پہچاننے کی ضرورت ہے! اسی کردار سے پیشگی متنبہ کیا جا رہا ہے کہ : 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ؕ وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ ؕ کہ یہ دراصل اس مرض اور قلبی روگ کا نقطۂ آغاز ہے جو آگے بڑھ کر منافقت کی صورت میں ڈھل جاتا ہے. آگے فرمایا: 

اَوَ لَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِمَا فِیۡ صُدُوۡرِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰﴾ 
’’تو کیا اللہ تعالیٰ زیادہ باخبر نہیں ہے اس سے کہ جو کچھ جہان والوں کے سینوں میں پنہاں ہے؟‘‘

جہان والوں کے سینوں کے پوشیدہ اسرار سے اللہ سے بڑھ کر کون واقف ہو گا؟ یہ لوگ اپنی غلط بیانی سے کسے دھوکہ دینا چاہتے ہیں ‘ کس کو فریب دینا چاہ رہے ہیں!! سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۹ میں اس فریب کاری کا پردہ چاک کر دیا گیا: 

یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ..... 
’’کہ یہ دھوکہ دینا چاہتے ہیں اللہ کو اور اہل ایمان کو‘ درآنحالیکہ یہ دھوکہ نہیں دے رہے مگر خود اپنے آپ کو…‘‘

سیدھی سی بات ہے کہ اگر تو معاملہ اللہ کے ہاتھ ہے تو وہ کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے‘ وہ تو لوگوں کے سینوں میں پوشیدہ باتوں سے بھی بخوبی آگاہ اور ان کی نیتوں اور ارادوں سے بھی خوب اچھی طرح واقف ہے.