اور اب اگلی آیت کے مطالعے سے پہلے ذرا ذہن میں لایئے آیت ۳ کا آخری حصّہ ‘ جس کا ہم مطالعہ کر چکے ہیں : فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾ کہ اللہ بالکل کھول کر رکھ دے گا ‘ ظاہر کر دے گا کہ کون سچے ہیں اور کون جھوٹے . وہاں سچے اور جھوٹے سے حقیقتاً جو مراد تھی یہاں اس پر سے پردہ اٹھا دیا گیا اور بات بالکل کھول دی گئی. چنانچہ فرمایا: 

وَ لَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ﴿۱۱﴾ 

کہ اللہ کھول کر رہے گا‘الم نشرح کر دے گا‘ بالکل واضح کر دے گا کہ کون ہیں وہ جو واقعتاً صاحب ایمان ہیں‘ حقیقتاً مؤمن ہیں‘ جو قلب و ذہن کی یکسوئی کے ساتھ ایمان لائے ہیں‘ جو اس عزمِ مصمم کے ساتھ آئے ہیں کہ ہرچہ بادا باد‘ اور وہ کون ہیں جنہوں نے اس وادی میں قدم رکھا تو ہے لیکن تحفظات کے ساتھ! جنہیں اس راہ کے مصائب و مشکلات کے مقابلے میں جان و مال کا تحفظ زیادہ عزیز ہے‘ جنہوں نے گوہ کے بل کی طرح اپنے لئے دونوں راستے کھلے رکھے ہیں کہ حالات کا اونٹ خواہ کسی کروٹ بیٹھے انہوں نے اپنے تحفظ کا سامان کیا ہوا ہے‘ جن کی کم ہمتی اور بودے پن کا یہ عالَم ہے کہ اللہ کی راہ میں جیسے ہی کوئی آزمائش آتی ہے وہ اس طرح گھبرا اٹھتے ہیں جیسے کوئی آسمانی آفت ٹوٹ پڑی ہو!
پھر نوٹ کر لیجئے کہ اگرچہ یہ مَکّی سورت ہے ‘ اور مَکّی دَور کے بھی وسطی حصّے سے اس کا تعلق ہے جبکہ ابھی اس نفاق کا دُور دُور تک امکان نہیں تھا جو بعد میں مدنی دَور میں پورے طور سے ظاہر ہوا‘ لیکن یہاں صاف الفاظ میں ’نفاق‘ اور ’منافقت‘ کا ذکر موجود ہے. گویا پیشگی متنبہ کر دیا گیا کہ اس راہ میں اگر کم ہمتی کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ طرزِ عمل انسان کو منافقت کی آخری سرحدوں تک لے جا سکتا ہے.