نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا ایک پُرفریب انداز

اس کے بعد انہی نوجوانوں کا ایک اور مسئلہ زیر بحث آ رہا ہے جن پر ان کے والدین کا دباؤ تو تھا ہی‘ ان کے بڑے اور بزرگ بڑے ہی ناصحانہ اور مشفقانہ انداز میں ایک بات ان سے کہتے تھے جس کا قرآن نے یہاں حوالہ دیا ہے. یہ وہ معاملہ ہے جس کا تجربہ ہر اُس نوجوان کو ہو گا جو کسی بھی انقلابی دعوت سے منسلک ہو. یہ باتیں وہ ہیں کہ جن سے ہر انقلابی جدوجہد میں فی الواقع سابقہ پیش آتا ہے. فرمایا: 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ 

’’اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (جو کفر کی روش پر قائم تھے) ان لوگوں سے کہ جو ایمان لائے تھے کہ اتباع کئے جاؤ ہمارے ہی راستے کا اور ہم اٹھا لیں گے تمہاری خطاؤ ں کا بوجھ.‘‘

یہ نوجوانوں کو بہکانے اور ورغلانے کا ایک انداز تھا جو قوم کے ان بڑے بوڑھوں نے اختیار کیا جو خود شرک پر قائم تھے. وہ بڑے مشفق اور خیر خواہ بن کر ان نوجوانوں سے کہ جو نبی اکرم پر ایمان لے آئے تھے‘ یہ کہتے تھے کہ بالکل بے فکر ہو کر چلے آؤ اپنے آباء و اجداد کے راستے پر‘ آنکھیں بند کر کے ہمارے پیچھے چلتے رہو‘ ہماری پیروی کرتے رہو‘ ہم ہی حق پر ہیں‘ آخر اپنے آباء و اجداد کے راستے کو کیوں ترک کرتے ہو!! پھر مزید ترغیب کے طو رپر اتمامِ حجت کے انداز میں وہ کہتے تھے کہ اگرواقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے آباء و اجداد کا یہ راستہ غلط ہے اور تمہاری سمجھ میں ہماری بات نہیں آ رہی تو بھی ذرا سوچو کہ اگر تمہاری ساری ذمہ داری ہم اٹھا لیں تو پھر تمہارے لئے تشویش کا کون سا معاملہ باقی رہ جاتا ہے؟ مطمئن رہو‘ ہم خدا کے ہاں تمہاری طرف سے جواب دہی کریں گے ‘ تمہاری ذمہ داری ہم قبول کریں گے. اگر فی الواقع ہم غلطی پر ہوئے تو بھی گھبراؤ نہیں‘ تمہاری خطاؤں کا بوجھ ہماری گردنوں پر ہو گا. فرمایا: 

وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲﴾ 
’’اور نہیں ہیں وہ اٹھانے والے ان کی خطائوں میں سے کچھ بھی. بلاشبہ یہ لوگ جھوٹے ہیں.‘‘

وہاں تو ہر ایک کو اپنی جواب دہی کرنی ہے‘ کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں . یہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں‘ دوسروں کو فریب دینے کی کوشش کر رہے ہیں. یہاں جس شدّت کے ساتھ ان کے دعوے کی نفی کی گئی ہے اور اگلی آیت میں جس طرح اللہ تعالیٰ کا غضب اُن پر ظاہر ہو رہا ہے‘ اس کے پس منظر میں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اس طرزِ خطاب میں اور فریب آمیز طرزِ تکلم میں واقعتا کچھ لوگوں کے لئے کچھ وزن تھا. آخر جب قوم کے بڑے بوڑھے کوئی بات اپنے تجربے کے حوالے سے کہتے ہیں تو ان کی بات بالعموم توجہ سے سنی جاتی ہے. دعوتِ حق پر کان دھرنے والے نوجوانوں پر اثر انداز ہونے کے لئے بزرگانِ قوم کی گفتگو کا انداز ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ میاں ہم نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے‘ ہم نے دنیا دیکھی ہے‘ تم ابھی نو عمری کے دَور میں ہو‘ تمہیں اپنے نفع و نقصان کی ابھی سمجھ نہیں ہے‘ کوئی سرپھرا شخص ہے جو تمہیں غلط راستے پر ڈال رہا ہے‘ وہ تمہاری دنیا برباد کر کے رکھ دے گا‘ ہمارے راستے پر آؤ! ہم تمہاری رہنمائی کریں گے. یہ وہ باتیں ہیں جو ان کی طرف سے سننے میں آتی ہیں اور اس بات کا امکان ہر دم رہتا ہے کہ کسی وقت انسان اگر کسی خاص کیفیت میں ہو اور ان بزرگوں کے ساتھ اس کے حسنِ ظن کا رشتہ برقرار ہو تو وہ ان سے کوئی اثر قبول کر لے. لہذا پوری شدت کے ساتھ ان کے دعوے کی نفی کی گئی اور ان کے فریب کا پردہ چاک کر دیا گیاکہ 
اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲﴾ ’’بلاشبہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں!‘‘ دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں!!