اس دورِ زوال میں جبکہ بہت سے دینی تصورات مسخ ہو گئے ہیں‘ ہمارے ذہنوں میں بالعموم یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ روزِ محشر کوئی وہاں ہمیں چھڑا لے گا اور ہمارا بوجھ اٹھا لے گا‘ کسی کے دامن سے وابستہ ہو کر نکل جائیں گے اور اس طرح ہمارا بیڑا پار ہو جائے گا. یہ تمام تصورات ایک طرف رکھئے اور قرآن مجید کا انداز دیکھئے! وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ ’’اور وہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہوں گے‘‘. جیسے ایک جگہ فرمایا : لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ۚ ’’کوئی کسی دوسرے کا بوجھ اٹھانے والا نہ ہو گا‘‘. وہاں تو اپنی اپنی گٹھڑی ہو گی اور اپنا اپنا کاندھا. ہر ایک کو اپنے بوجھ خود اٹھانے پڑیں گے. ہر شخص کو اپنی جواب دہی خود کرنی ہو گی : وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا قیامت میں ہر شخص کو اپنی انفرادی حیثیت میں پیش ہونا ہو گا اور اسی اعتبار سے اس کا محاسبہ ہو گا کہ تم کیا تھے؟ کہاں تھے؟ تمہاری صلاحیتوں کا مصرف کیا ہوا؟ تمہیں ہم نے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی تھی اس سے کتنا کچھ فائدہ اٹھایا؟ یہ دلیل وہاں ہرگز قبول نہیں ہو گی کہ ہم نے تو اپنے بزرگوں کے نقش قدم کی پیروی کی تھی‘ اگر ہم غلطی پر تھے تو اس کے ذمہ دار ہمارے بڑے بزرگ ہیں‘ ہم نہیں ہیں!!