انبیاء اور رُسل کے احوال بیان کرنے کے بعد پانچویں رکوع میں آیت نمبر ۴۵ سے کہ جہاں سے اکیسویں پارے کا آغاز ہوا ہے‘ ایک نہایت اہم مضمون شروع ہوتا ہے کہ اس قسم کے حالات میں اہل ایمان کو کرنا کیا چاہئے. اس ضمن میں بعض معین ہدایات مسلمانوں کو دی جا رہی ہیں. اجمالاً یہاں اس میں سے صرف چند آیات کا حوالہ دینا مفید رہے گا. ظاہر بات ہے کہ اس پوری عبارت کو جو تین رکوعوں پر مشتمل ہے‘ ہم اس مختصر نصاب میں شامل نہیں کر سکتے. اس سلسلے کی پہلی ہدایت اکیسویں پارے کے بالکل آغاز میں وارد ہوئی ہے : اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ ﴿۴۵﴾ 

’’(اے نبیؐ !) تلاوت کیا کرو اس کی جو وحی کیا گیا ہے تمہاری جانب کتابِ الٰہی میں سے اور نماز قائم رکھو‘ یقینا نماز برائی سے اور بے حیائی سے روکنے والی ہے. اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے. اور اللہ جانتا ہے جو کچھ کہ تم کر رہے ہو.‘‘
یہ وہی مضمون ہے جو سورۃ المنافقون میں ہم پڑھ چکے ہیں‘ یعنی ذکر الٰہی کا التزام. اس کٹھن راستے میں ہمدم‘ غم خوار‘ پشت پناہ اور ہمت بندھانے والا اگر کوئی ہے تو وہ اللہ کا ذکر ہے. وہاں فرمایا گیا تھا کہ :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۹﴾ 
’’اے مسلمانو! دیکھنا تمہارا مال اور تمہاری اولاد کہیں تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں. اس لئے کہ جو اس فتنے میں گرفتار ہو گیا تو وہی ہے خسارہ پانے والا.‘‘

یہاں فرمایا کہ مشکل اور کٹھن حالات میں تمہارے لئے اصل سہارا تلاوتِ قرآن اور ادائے صلوۃ ہے‘ اور یہ دونوں ذکر کی اعلیٰ ترین صورتیں ہیں. قرآن حکیم مجسم ذکر ہے. یہ ’’الذکر‘‘ بھی ہے اور ’’ذکریٰ‘‘ بھی! اس کی تلاوت پر کاربند رہنا‘ اس کو پڑھتے رہنا ذکر کی نہایت عمدہ صورت ہے. پھر یہ کہ جامع ترین ذکر ہے نماز. اس میں ذکرِ قولی بھی ہے اور ذکرِ عملی بھی . اس میں اپنی زبان سے اللہ کو یاد کرنا بھی ہے اور اس کے سامنے اظہارِ بندگی کے طور پر جھک جانا یعنی رکوع اور سجود بھی ہے. فرمایا : 
وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ کہ اس راہ میں ہمت بندھانے والی اور ثابت قدم رکھنے والی سب سے بڑی چیز بلاشبہ ’’اللہ کی یاد‘‘ ہے.

اس سلسلے کی دوسری اہم ہدایت اس سلسلۂ کلام میں ذرا آگے چل کر وارد ہوئی ہے. یہ آیت نمبر ۵۶ ہے جس میں ہجرت کی طرف اشارہ بھی موجود ہے. فرمایا: 

یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ 
’’اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین بہت کشادہ ہے ‘ پس تم صرف میری بندگی کرو.‘‘

کہ اگر کسی ایک مقام پر تمہارے لئے توحید پر کاربند رہنا ناممکن بنا دیا گیا ہو تو تم اس زمین کے ساتھ 
بندھے نہ رہو‘ وہ شہر ‘ وہ ملک یا وہ خطۂ ارضی تمہارے قدموں کو روک نہ لے‘ باندھ نہ لے‘ بلکہ تم ہجرت کر جائو. اس لئے کہ بہرصورت تمہیں بندگی میری ہی کرنی ہے. اس آیۂ مبارکہ میں گویا کہ مسلمانوں کو ہدایت دے دی گئی اور صاف الفاظ میں اشارہ کر دیا گیا کہ اگر مَکّہ کی سرزمین تم پر تنگ ہو گئی ہے اور یہاں رہ کر توحید پر کاربند رہنا تمہارے لئے مشکل بنا دیا گیا ہے تو اس سرزمین کو خیرباد کہو اور ہجرت کر جائو. درحقیقت اسی ہدایت اور رہنمائی کے تحت ہجرتِ حبشہ واقع ہوئی. نبی اکرم نے اہل ایمان کو یہ اجازت دی کہ وہ مَکّہ سے چلے جائیں اور حبشہ میں جا کر پناہ گزین ہوجائیں. چنانچہ مسلمانوں کے دو قافلے حبشہ کی طرف روانہ ہوئے. حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے. اس سورئہ مبارکہ میں حضرت ابراہیم ںکا خاص طور پر جو ذکر آیا ہے‘ جس طریقے سے ان کی زندگی مسلسل مہاجرت میں گزری ہے ‘یہ حکم گویا اسی کا ایک عکس ہے. آگے فرمایا:

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ۟ ثُمَّ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۵۷﴾ 
’’ہر ایک کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ‘ پھر تم سب ہماری طرف لوٹا ئے جائو گے.‘‘

کہ یہ زندگی عارضی ہے‘ تکلیفوں اور مشقتوں میں بھی بیت جائے گی اور آرام و آسائش کے ساتھ بھی بہرحال ختم ہو کر رہے گی. پھر تم سب ہماری طرف لوٹا دیئے جائو گے. موت کا خوف اگر ہجرت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے تو اسے ذہن سے جھٹک دو‘ موت تو بہرصورت آ کر رہے گی.

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ غُرَفًا تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ نِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ ﴿٭ۖ۵۸﴾ 
پھر دیکھئے وہی مؤکد وعدہ جو پہلے رکوع میں دو مرتبہ آیا تھا‘ یہاں سورۃ کے آخری حصّے میں بھی موجود ہے: ’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے (یعنی ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا کیا) ہم لازماً ان کو ٹھکانہ دیں گے جنت کے بالاخانوں میں‘‘. نوٹ کیجئے‘ ہجرت کے ساتھ اس لفظ ’’لَنُبَوِّئَنَّھُمْ‘‘ کی بڑی مناسبت ہے. ’’بَوَّئَ. یُبَوِّئُ کے معنی ہیں کہیں ٹھکانہ فراہم کرنا. ’’ہم ان کے لئے ٹھکانہ بنائیں گے جنت کے ان بالاخانوں میں (بہشت کے ان جھروکوں میں) جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ اور کیا ہی عمدہ ہے یہ بدلہ عمل کرنے والوں کا‘‘. اور یہ عمل کرنے والے کون ہیں؟ ساتھ ہی واضح فرمایا : الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿۵۹﴾ وہ لوگ جنہوں نے صبر کی روش اختیار کی‘ جو ثابت قدم رہے‘ نہ کسی تشدد اور مخالفت سے بددل ہوئے نہ کسی لالچ اورtemptation سے انہوں نے اپنی منزل کھوٹی کی. ان کا توکل صرف اپنے ربّ پر تھا‘ ان کی تمام امیدیں صرف اسی کی ذات سے وابستہ رہیں اور وہ اسی کی پکڑ سے ڈرتے رہے!