ابوطالب پر قریش کا دبائو

لالچ (temptation) کے پھندے سے بھی جب آپ صاف بچ نکلے تو پھر ابو طالب کو دھمَکّی دی گئی کہ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے‘ اب یا تو تم اپنے بھتیجے کی حمایت سے دستکش ہو جائو یا اسے اس کے حال پر چھوڑ دو‘ ہم نپٹ لیں گے‘ لیکن اگر تمہارا فیصلہ یہ ہے کہ تم حسبِ سابق خاندانی سطح پر محمد(: ) کی پشت پناہی اور حمایت برقرار رکھو گے تو پھر ٹھیک ہے‘ کھلے میدان میں آئو‘ اب بنی ہاشم کا اور قریش کے بقیہ گھرانوں کا کھلا تصادم ہو گا . ابوطالب نے گھبرا کر نبی اکرم کے سامنے یہ بات بھی رکھی اور ساتھ ہی یہ کہا کہ بھتیجے! مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جسے میں برداشت نہ کر سکوں. گویا ابو طالب کی ہمت بھی جواب دیتی نظر آئی‘ محسوس ہو رہا تھا کہ قریش کی طرف سے اس متحدہ چیلنج کو قبول کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے. یہ وہ وقت ہے کہ روایات میں آتا ہے کہ شدتِ تاثر سے حضور کی آنکھیں نم ہو گئیں کہ یہ ایک دُنیوی سہارا جو اب تک حاصل تھا ‘شاید یہ بھی اب ساتھ چھوڑ رہا ہے. لیکن نہایت پُر عزم لہجے میں آپ نے فرمایا کہ چچا جان! خدا کی قسم ‘یا تو مَیں اس کام میں اب ہلاک ہو جائوں گا اور یا اللہ اس کام کو پورا کرے گا‘ اس سے قدم پیچھے ہٹانے کا کوئی سوال نہیں! اللہ نے اس موقع پر ابو طالب کو بھی ہمت عطا فرمائی‘ انہوں نے کہا کہ پھر ٹھیک ہے‘ بھتیجے میں بھی تمہارے ساتھ ہوں.