طائف سے واپسی کے بعد سے لے کر ہجرتِ مدینہ تک اڑھائی تین سال کا عرصہ ہماری اِس وقت کی گفتگو کے لحاظ سے دو اعتبارات سے قابل توجہ ہے. ایک یہ کہ نصرتِ خداوندی کا ظہور اس شان کے ساتھ ہوتا ہے کہ سن گیارہ نبوی میں مدینہ کے چھ افراد نبی اکرم پر ایمان لے آتے ہیں. اس کا ذکر اس سلسلۂ درس میں پہلے بھی کسی موقع پر ہو چکا ہے. چشم تصور سے دیکھئے! حج کا موسم ہے‘ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے قافلے مختلف وادیوں میں پڑائو ڈالے ہوئے ہیں‘ اللہ کا رسول اللہ کے پیغام کو عام کرنے اور مخلوقِ خدا کو راہِ راست پر لانے کی شدید آرزو دل میں لئے ایک وادی میں سے گزر رہا ہے. ایک جگہ چھ افراد ملتے ہیں ‘ان کے سامنے آپؐ اپنی دعوت پیش کرتے ہیں‘ وہ چھ افراد یثرب کی بستی سے آئے ہیں‘ آپؐ :کی بات سن کر وہ کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں‘ آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ یہودی جو دعویٰ کرتے تھے کہ ایک نبی کے ظہور کا وقت قریب ہے ‘شاید یہ وہی نبی ہیں . آئو کہ ہم ان پر ایمان میں سبقت کر لیں‘ مبادا یہودی ہم سے آگے بڑھیں اور وہ پہلے ان کی تصدیق کر دیں. گویا اوس اور خزرج کو یہود کے ذریعے سے جو معلومات حاصل ہوئیں وہ ان کے ایمان کا ذریعہ بن گئیں. (واضح رہے کہ یثرب میں دو قبائل اوس اور خزرج آباد تھے جنہیں ہم وہاںکے قدیم باشندے قرار دے سکتے ہیں‘ جبکہ یہودیوں کے بھی تین قبائل مدینے کے قرب و جوار میں آ کر آباد ہو گئے تھے) اگلے سال سن بارہ نبوی میں بارہ افراد ایمان لے آئے اور انہوں نے محمد رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی.یہ بیعت عقبۂ اولیٰ ہے. ساتھ ہی انہوں نے آنحضور کی خدمت میں عرض کیا کہ اپنا کوئی نمائندہ ہمیں دیجئے جو ہمیں قرآن کی تعلیم دے. سورۃ الجمعہ کا درس ذہن میں لایئے‘ قرآن حکیم ہی حضور کی دعوت کے مرکز و محور کی حیثیت رکھتا ہے. چنانچہ ع ’’قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند‘‘ کے مصداق اس عظیم کام کے لئے حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کا انتخاب ہوتا ہے. 

یہاں ان کا شخصی تعارف کرا دینا بہت مناسب ہو گا. یہ ایمان اس وقت لائے جب ابھی بالکل نوعمر تھے. بڑے ہی ناز و نعم میں پرورش ہوئی. ان کے لئے دو دو سو درہم کا جوڑا شام سے تیار ہو کر آتاتھا. نہایت قیمتی اور معطر لباس میں ملبوس جہاں سے گزرتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے‘ لوگ اشارہ کرتے کہ وہ مصعب جا رہا ہے. ایمان لے آئے تو گھر والوں نے سب کچھ چھین کر بالکل برہنہ حالت میں نکال باہر کیا کہ اگر تم نے آباء و اجداد کے دین کو چھوڑا ہے تو اپنے آباء و اجداد کی دولت اور ان کی وراثت سے بھی تمہیں کوئی حصہ نہیں مل سکتا. اب وہ نوجوان ہر شے سے کٹ کر محمد رسول اللہ  کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے. یہ وہی مصعبؓ ہیں کہ جن کے نام قرعۂ فال نکلتا ہے اور وہ معلمِ قرآن بنا کر یثرب بھیج دیئے جاتے ہیں. وہاں ان کا نام ’’ المُقری‘‘ (پڑھانے والا) مشہور ہو گیا. انؓ کی محنت کا حاصل یہ تھا کہ اگلے سال سن ۱۳نبوی کے حج کے موقع پر ۷۵ افراد جن میں ۷۲ مَرد اور ۳ عورتیں شامل تھیں ‘محمد رسول اللہ: کے ہاتھ پر بیعت کے لئے حاضر ہوئے. بیعت ِ عقبہ ٔ ثانیہ ہو رہی ہے. یہی بیعت ہجرت ِ مدینہ کی بنیاد بن گئی ‘اس لئے کہ انہوں نے حضور سے یہ معاہدہ کیا کہ آپؐ ہمارے ہاں تشریف لائیے ‘ہم آپؐ :کی اسی طرح حفاظت کریں گے کہ جیسے اپنے اہل و عیال کی کرتے 
ہیں. یہ معاہدہ ہوا اور ہجرتِ مدینہ کے لئے راہ ہموار ہو گئی. بہرحال نصرتِ خداوندی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ کہاں طائف میں یہ حالت تھی کہ آپؐ خود وہاں تشریف لے گئے اور ہر جانب سے انتہائی مایوس کن جواب ملا اور کہاں یہ کیفیت کہ مدینہ منورہ میں آنحضور کے قدم ابھی پہنچے بھی نہیں‘ آپؐ :کا ایک ادنیٰ جان نثار وہاں جا کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتا ہے اور وہاں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک انقلاب آ گیا‘ اوس اور خزرج کے سربرآوردہ لوگ ایمان لے آئے. اللہ نے مدینہ کو حضور اکرم اور صحابہ کرامؓ کے لئے سورۃ الانفال کی آیت نمبر۲۶ کے مطابق ایک پناہ گاہ اور دعوتِ اسلامی کا مرکز بنا دیا. بہرحال ایک طرف تو نصرتِ خداوندی کا یہ ظہور ہے‘ اسے نگاہ میں رکھئے اور دوسری طرف مَکّہ اور اہلِ مَکّہ کے ساتھ جو ہو رہا ہے‘ اسے بھی ذہن میں لائیے!