آنحضور کو یہاں توجہ دلائی گئی کہ اگرچہ آپؐ :کی یہ خواہش اپنی جگہ بجا ہے کہ سردارانِ قریش ایمان قبول کر لیں تاکہ مسلمانوں کے لئے آسانی ہو جائے‘ لیکن ان کی جانب آپؐ :کا یہ غیر معمولی التفات بھی مناسب نہیں ہے.آپؐ انہیں ایمان کی دعوت ضرور دیجئے لیکن یہ انداز اختیار نہ کیجئے ! یہی بات سورئہ کہف کی ان آیات میں آئی ہے: 

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا ﴿۲۷﴾ 

کہ اے نبی! جو کتاب آپؐ پر نازل فرمائی گئی ہے اس کی تلاوت کیجئے‘ اسے پڑھتے رہئے. آپؐ کے صبر و ثبات کی اصل اساس یہ ہے …یہ مضمون اس سے پہلے ہمارے سابق درس سورۃ العنکبوت میں بھی آ چکا ہے‘ جہاں اکیسویں پارے کی پہلی آیت بعینہٖ انہی الفاظ سے شروع ہوتی ہے : وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ ... اور جان لیجئے کہ اللہ کے فیصلوں کو کوئی بدل نہیں سکتا. آپؐ :کی جدوجہد کا نتیجہ کب ظاہر ہو گا‘ راستہ کہاں سے نکلے گا‘ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے. آپؐ اپنا فرضِ منصبی ادا کیجئے‘ آپؐ کے ذمے تو بس صاف صاف پہنچا دیناہے‘ کسی کے پیچھے پڑ کر اپنے لئے یا اس دین کی دعوت کے لئے کسی درجے میں بھی کسی ہلکے پن کا کوئی امکان پیدا نہ ہونے دیجئے. وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا ﴿۲۷﴾ اور سمجھ لیجئے کہ آپؐ :کو پناہ تو بس اللہ ہی کے ہاں ملے گی‘ وہی پناہ مہیا فرمائے گا‘ نصرت و تائید وہیں سے ملے گی. ان اسبابِ ظاہری کی جانب آپؐ ملتفت نہ ہوں‘ ان کی طرف زیادہ توجہ نہ فرمائیں‘ آپؐ : کا ملجاو ماویٰ بس اللہ ہی کی ذات ہے.
اگلی آیت میں فرمایا: 

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ 

یہاں لفظ’’ صبر‘‘ کو نوٹ کیجئے جو منتخب نصاب کے اس حصّے کا اصل موضوع ہے جو ہمارے زیرِ مطالعہ ہے. صبر کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان فقراء اور ضعفاء کے ساتھ مصاحبت اختیار کیجئے جو اگرچہ کمزور اور بے حیثیت لوگ ہیں لیکن ایمان لا چکے ہیں. ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حضرت نوح علیہ السلام سے ان کی قوم کے سرداروں نے کہا تھا : ہُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ کہ اے نوح! ہم تمہارے پاس کیا آ کر بیٹھیں اور تم سے کیا بات کریں؟ تمہارے اردگرد تو ان لوگوں کا جمگھٹا ہوتا ہے جو ہمارے معاشرے کے گھٹیا اور کمین لوگ ہیں ! ہم تمہاری بات سنیں تو کیسے‘ تمہارے پاس آئیں تو کیسے؟ یہی معاملہ سردارانِ قریش کا بھی تھا‘ وہ بھی اس بات پر معترض تھے کہ آپ کے آس پاس بیٹھنے والے تو اکثر وہ لوگ ہیں جو ہمارے غلاموں کے طبقے سے ہیں‘ ان کی موجودگی میں ہم آپؐ:کی محفل میں کیسے آ سکتے ہیں؟ لیکن حضور کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپؐ :تو بس اپنے آپ کو انہی فقراء کے ساتھ تھام کر رکھئے. یہ لوگ اگرچہ دنیاوی اعتبار سے بے حیثیت ہیں‘ دُنیوی مال و اسباب ان کے پاس نہیں ہے‘ لیکن یہ ایمان اور محبت ِ الٰہی کی دولت سے مالا مال ہیں‘ یہ صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ صرف اس کی رضا کے طالب ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح و شام اپنے ربّ کو پکارتے ہیں. آگے فرمایا : وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ آپ کی نگاہیں ان درویشوں سے ہٹ کر ان سردارانِ قریش کی جانب متوجہ نہ ہونے پائیں کہ کہیں دیکھنے والے کو یہ مغالطہ ہو کہ شاید آپؐ بھی دنیا کی چمک دمک سے متاثر ہو گئے ہیں اور شاید دنیا کی ظاہری زیب و زینت اور چہل پہل سے آپؐ نے بھی کوئی تاثر قبول کر لیا ہے.

آیت کے اگلے ٹکڑے میں فرمایا: 
وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہ کہ یہ جو مصالحت کے لئے سردارانِ قریش آپؐ کے پاس آتے ہیں ان کے اصل باطن کو دیکھئے‘ یہ حق کو پہچاننے کے بعد اس سے اعراض کر رہے ہیں‘ ان کے کہنے میں نہ آئیے‘ ان کی چکنی چپڑی باتوں سے آپؐ متاثر نہ ہوں. یہ لوگ اپنی خواہشات کا اتباع کر رہے ہیں‘ ہماری یاد سے ان کے دل غافل ہیں. ہم نے انہیں محروم کر دیا ہے اپنی یاد کی لذت سے. ان کی پوری زندگی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہیں. وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ اور اے نبی! ان سے ڈنکے کی چوٹ کہئے : مجھے تمہاری کوئی خوشامد نہیں کرنی‘ مجھے چاپلوسی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ یہ تمہارے ربّ کی جانب سے حق ہے جو میں پیش کر رہا ہوں. فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ تو جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے.داعی ٔ حق کے لئے استغنا کا یہ انداز برقرار رکھنا ضروری ہے تا کہ لوگ اس مغالطے میں مبتلا نہ ہوں کہ اس کی کوئی ذاتی غرض اس دعوت کے ساتھ کسی درجے میں ملحق ہو گئی ہے. 

اس کے بعد غیظ و غضب کے انداز میں کفار کے انجام کا ذکر ہے. فرمایا: 
اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ ہم نے ان ظالموں کے لئے وہ آگ فراہم کی ہوئی ہے جو ان کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لے گی جیسے کہ قناتیں ہوتی ہیں. وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ اور اگر یہ چیخیں گے‘ پکاریں گے‘ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو کھولتے اور پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہو گا کہ جس سے ان کے مُنہ جل کر رہ جائیں‘ وہ پانی ان کے چہروں کو بھون کر رکھ دے گا. بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا ﴿۲۹﴾ وہ بہت ہی بری شے ہو گی پینے کی اور بہت ہی براہو گا وہ انجام جس سے یہ دوچار ہوں گے.