مدنی دورکا آغاز اہل ایمان کو پیشگی تنبیہ

مدنی دَور کے آغاز میں اہل ایمان کو پیشگی تنبیہہ سورۃ البقرۃ کی آیات ۱۵۳ تا ۱۵۷ کی روشنی میں

نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اَعُوذ بِاللّٰہ مِنَ الشَّیطن الرَّجیْم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ
اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾ 
… ج
مطالعۂ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب کے پانچویں حصّے کا تیسرا درس سورۃ البقرۃ کی پانچ آیات (۱۵۳ تا ۱۵۷) پر مشتمل ہے. ان آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ یوں ہے:

’’اے ایمان والو! مدد حاصل کرو صبر اور نماز سے‘ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے. اور مت کہو اُن کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں‘ مردہ! بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں. اور ہم لازماً آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے‘ بھوک سے اور مال و جان کے نقصان سے اور نتائج و ثمرات کے ضیاع سے. اور اے نبی! خوشخبری سنا دیجئے ان صبر کرنے والوں کو کہ جن پر اگر کوئی مصیبت ٹوٹتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے. یہی ہیں وہ لوگ کہ جن پر اُن کے ربّ کی جانب سے عنایتیں ہیں اور یہی ہیں وہ لوگ کہ جو راہ یاب ہونے والے ہیں .(منزلِ مرادتک پہنچنے والے ہیں.)
ان آیات سے درحقیقت سورۃ البقرۃ کے نصف ِ ثانی کا آغاز ہو رہا ہے‘ تاہم اس بات کو سمجھنے کے لیے سورۃ البقرۃ کے زمانۂ نزول کو ذہن میں رکھنا اور اس کے مضامین کے درمیان جو ایک نہایت
گہری حکیمانہ ترتیب ہے‘ اس پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے. زمانۂ نزول کے اعتبار سے سورۃ البقرۃ پہلی مدنی سورت ہے.

تقریباً ڈھائی پاروں پر پھیلی ہوئی اور ۲۸۶ آیات پر مشتمل قرآنِ حکیم کی یہ طویل ترین سورۃ اکثر و بیشتر ان آیات پر مشتمل ہے جو ہجرت کے فوراً بعد سے لے کر غزوئہ بدر سے متصلاً قبل تک وقتاً فوقتاً نازل ہوئیں. صرف چند آیات مستثنیٰ ہیں‘ مثلاً سود کی حرمت سے متعلق آیات اور قرض کے لین دین سے متعلق احکام پر مشتمل طویل آیت جو کہ مدنی دَور کے آخری زمانے سے متعلق ہیں‘ یا پھر سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیتیں جن کے بارے میں یہ روایت ملتی ہے کہ وہ معراج کی شب نبی اکرم: کو اُمت کے لیے تحفے کے طور پر عطا ہوئیں. باقی قریباً پوری سورۃ ہجرت کے فوراً بعد سے لے کر غزوئہ بدر سے متصلاً قبل کے عرصے کے دوران نازل ہوئی جس کا دورانیہ کم و بیش دو سال بنتا ہے. یہ بھی ذہن میں رہے کہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے اس سے متصلاً قبل سورۃ الحج ہے اور ان دونوں سورتوں کے مضامین میں بڑی گہری مناسبت ہے‘ گو مصحف میں ان کے مابین لگ بھگ پندرہ پاروں کا فصل ہے‘ سورۃ البقرۃ بالکل آغاز میں ہے اور تیسرے پارے کے قریباً نصف تک چلی گئی ہے ‘جبکہ سورۃ الحج سترہویں پارے کے نصف آخر میں ہے‘ تاہم زمانہ ٔ:نزول کے اعتبار سے یہ دونوں سورتیں متصل ہیں.