آیت کے آخری ٹکڑے میں شہداء کی زندگی کے بارے میں وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ کے الفاظ میں ہمارے لیے بڑی اہم رہنمائی مضمر ہے. شہداء کو اللہ جس نوع کی حیات عطا فرماتا ہے اور برزخی زندگی میں بھی جس طور سے انہیں رزق مہیا فرماتا ہے اس تک ہمارے فہم و ادراک کی رسائی نہیں ہے‘ اس دنیا میں رہتے ہوئے ہم اس کی کیفیت کو نہیں جان سکتے. بدقسمتی سے برزخی زندگی کے حوالے سے مسلمانوں میں ایک مذہبی بحث (Controversy) نے بڑے ہی شدت اختیار کی ہوئی ہے. اس کے بارے میں ایک بڑی بنیادی رہنمائی ہمیں اس آیت سے ملتی ہے. وہ بحث یہ ہے کہ عالمِ برزخ میں نبی اکرم کی حیات کی نوعیت کیا ہے‘ اپنی قبر شریف میں آنحضور کس حال میں ہیں!! یہ مسئلہ ہمارے مذہبی حلقوں میں نامعلوم کیونکر بحث و تمحیص‘ قیل و قال اور ردّ و قدح کا موضوع بن گیا! حالانکہ ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے اور یہ قرآن حکیم کی بنیادی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے کہ موت خاتمے کا نام نہیں ہے‘ نہ کسی مؤمن کے لیے نہ کافر کے لیے. اِدھر آنکھ بند ہوتی ہے تو دوسرے عالم میں کھل جاتی ہے. یہ عالم برزخ ہے جس کا تسلسل قیامت تک رہے گا. 

اس برزخی دَور میں ایک نوع کی حیات تمام انسانوں کے لیے ہے. اس برزخی حیات کا مرحلہ کافروں کے لیے بھی ہے اور مؤمنین کے لیے بھی‘ تاہم زندگی کی کیفیات مختلف ہیں. آنحضور نے فرمایا کہ ہر قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے. یہاں قبر سے مراد مٹی کا وہ ڈھیر نہیں جس کے نیچے انسان مدفون ہوتا ہے‘ بلکہ یہاں یہ اپنے وسیع تر مفہوم میں ہے اور اس سے مراد عالم برزخ ہے. چنانچہ خواہ کوئی شخص سمندر میں غرق ہو کر مرا ہو عالم برزخ میں وہ ایک خاص کیفیت سے گزرتا ہے‘ اس کے آخری انجام کا ایک عکس پڑتا رہتا ہے. اب ظاہر ہے کہ ابوجہل یا ابولہب کے ساتھ عالم برزخ میں جو معاملہ ہو رہا ہے وہ کچھ اور ہے اور کوئی مسلمان عالم برزخ میں جس کیفیت سے گزر رہا ہے وہ کچھ اور ہے‘ کوئی مؤمن صالح وہاں کسی اور کیفیت میں ہو گا‘ شہداء کا کچھ اور عالم ہو گا اور صدیقین کی شان کچھ اور ہو گی‘ انبیاء و رُسل کا مرتبہ 
و مقام کچھ اور ہو گا اور سیّدالمرسلین‘ سیّدالاولین والآخرین اس عالم برزخ میں جس شان میں ہوں گے وہ ہمارے فہم اور تصور سے ماوراء ہے‘ بلکہ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے. جب ہم شہداء کی برزخی زندگی کا کوئی تصور قائم نہیں کر سکتے اور اس کی نوعیت کا تعین نہیں کر سکتے‘ جیسا کہ قرآن نے صاف طور پر کہہ دیا ہے : وَلٰــکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ کہ تمہیں اس کا شعور حاصل نہیں ہے تو نبی اکرم کی برزخی حیات کے بارے میں کوئی تصور کرنا ہمارے لیے قطعاً ناممکن ہے. یہ چیز ہمارے فہم و شعور اور تخیل و ادراک کی گرفت میں آنے والی ہے ہی نہیں.

اس معاملے میں بحث کرنا ہی دراصل اپنی حدود سے تجاوز کرنا ہے. یہ کہنا کہ حضور بالکل اسی طرح زندہ ہیں جیسے کہ اس دنیا میں زندہ تھے‘ ایک اعتبار سے شاید آپؐ :کی توہین قرار پائے‘ اس لیے کہ یہ دنیا کی زندگی تو بہت سی احتیاجات کے ساتھ ہے‘ اس میں طرح طرح کی تحدیدیں ہیں‘ عالمِ برزخ میں نبی اکرم کو جو حیات حاصل ہے وہ یقینا اس سے کہیں اعلیٰ‘ کہیں ارفع ہے‘ جو ہمارے فہم اور ہماری سوچ سے بہت بلند اور بالا ہے. بہرحال اس معاملے میں خواہ مخواہ کسی چیز کو معین کر کے اس پر جھگڑنا اور اس کی بنیاد پر ’’من دیگرم تُو دیگری‘‘ کے انداز میں تفریق پیدا کر لینا درحقیقت بڑی ہی نادانی کی بات ہے.