اس آیۂ مبارکہ میں دراصل ایک مسلمان کے نظریۂ زندگی اور تصورِ حیات کی مکمل عکاسی موجود ہے. ہمارا تصورِ حیات کیا ہے؟ ہم اللہ کے پاس سے آ رہے ہیں اور اللہ ہی کے پاس واپس لوٹ جائیں گے. یہ دُنیوی زندگی ایک سفر ہے‘ یہ ہر گز ہماری منزل نہیں ہے. یہ ہمارے سفرِ حیات کا ایک عارضی سا وقفہ ہے. اس دنیا میں رہتے ہوئے ہم پر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ہم آئے کدھر سے ہیں اور اپنی اس منزل کا بھی واضح شعور ہمیںہونا چاہیے جہاں ہمیں جانا ہے. اسی حقیقت کا اظہار اس آیۂ مبارکہ میں ہے کہ ہمارا وجود بھی اللہ کا عطا کردہ ہے اور ہمیں حیات بھی اسی نے عطا کی ہے. لہٰذا ع ’’سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے!‘‘ اللہ ہمارے بارے میں جو فیصلہ بھی کرے ہمیں قبول ہے. اس کی مرضی کے آگے ہمارا سرِ تسلیم خم ہے. ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی عطا ہے. ع ’’ ہر چہ ساقی ٔ ماریخت عین الطاف است‘‘ میرے اس پیالے میں میرے ساقی نے جو کچھ ڈال دیا یہ اس کی نگاہِ کرم ہی کے طفیل ہے. یہ اس کا عطیہ ہے‘ لہٰذا دل و جان سے قبول ہے. آگے فرمایا:
اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ
’’یہ ہیں وہ لوگ کہ جن پر اُن کے ربّ کی طرف سے عنایتیں ہیں اور رحمت ہے‘‘.