قرآن حکیم میں متعدد غزوات کا تذکرہ موجود ہے اور اس معاملہ میں ہمیں وہاں ایک عجیب حسن ترتیب نظر آتی ہے. قرآن حکیم میں مکّیات اور مدنیات کے لحاظ سے سورتوں کے جو سات گروپ بنتے ہیں ان کے بارے میں بنیادی تعارفی باتیں اس منتخب نصاب کے درس کے دوران ایک موقع پر عرض کی جا چکی ہیں. اس سلسلے کا دوسرا گروپ اس اعتبار سے نہایت متوازن ہے کہ اس میں شامل کل چار سورتوں میں سے دو سورتیں مَکّی ہیں اور دو ہی سورتیں مدنی ہیں. سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف مکّیات ہیں اور سورۃ الانفال اور سورۃ التوبۃ مدنیات ہیں. اس ترتیب میں ایک عجیب حکمت یہ نظر آتی ہے کہ سلسلۂ غزوات کی پہلی کڑی یعنی غزوئہ بدر کا ذکر سورۃ الانفال میں ہے اور اس سلسلے کی آخری کڑی یعنی غزوئہ تبوک کا تفصیلی ذکر ہے سورۃ التوبہ میں. گویا کہ ان دونوں سورتوں کو مصحف میں متصلاً رکھ کر اس سلسلۂ غزوات کے نقطۂ آغاز اور نقطۂ اختتام دونوں کو یکجا کر دیا گیا.

قرآنِ حکیم میں تمام غزوات کا ذکر نہیں ہے. اب ظاہر ہے کہ جن کا ذکر کیا گیا ہے یقینا ان کی اہمیت کسی نہ کسی پہلو سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہے. گویا کہ وہ نبی اکرم کی انقلابی جدوجہد اور آپؐ کے مشن کی تکمیل کی اس کوشش میں اہم سنگ ہائے میل (Land Marks) کی حیثیت رکھتے ہیں. وہ غزوات کہ جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے ان میں غزوئہ بدر ہے جو رمضان ۲ ھ میں ہوا. قرآن حکیم کی ایک مکمل سورۃ ‘ یعنی سورۃ الانفال اسی غزوے کے حالات و واقعات اور اس سے متعلق مباحث پر مشتمل ہے. اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پوری سورۃ ایک انتہائی مربوط خطبے کی حیثیت سے بیک وقت نازل ہوئی‘ اس لئے کہ اس کے اوّل و آخر کے درمیان ایک بڑا گہرا منطقی اور معنوی ربط ہے‘ جس کا حوالہ بعد میں ہماری گفتگو میں آئے گا. غزوئہ بدر کے فوراً بعد غزوئہ بنی قینقاع ہوا‘ لیکن اس کا قرآنِ مجید میں ذکر موجود نہیں ہے. شوال ۳ھ میں غزوئہ اُحد ہوا. یہ غزوہ بعض اعتبارات سے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس میں بعض ایسے واقعات پیش آئے جن کے نتائج بہت دُور رس نکلے‘ چنانچہ قرآن مجید میں اس غزوہ کے حالات و واقعات پر بھی نہایت بھرپور تبصرہ موجود ہے. سورئہ آل عمران کی ایک سو بیسویں آیت سے یہ مضمون شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد تقریباً مسلسل ساٹھ آیات اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہوئیں. اس کے بعد غزوئہ بنونضیر واقع ہوا. اس کا ذکر قرآنِ حکیم میں سورۃ الحشر میں ہے. پھر۵ھ میں غزوئہ احزاب یا غزوئہ خندق پیش آیا. اس کا شمار بھی انتہائی اہم غزوات میں ہوتا ہے اور سلسلۂ غزوات میں اسے ایک فیصلہ کن موڑ (Turning Point) کی حیثیت حاصل ہے. اس پر سورۃ الاحزاب میں مکمل دو رکوعوں میں روشنی ڈالی گئی ہے. اس کے معاً بعد غزوئہ بنو قریظہ ہے جسے غزوئہ احزاب ہی کا ضمیمہ یا تکملہ قرار دیا جا سکتا ہے. چنانچہ سورۃ الاحزاب ہی میں غزوئہ احزاب کے ذکر کے ساتھ متصلاً اس کا تذکرہ بھی موجود ہے. اس کے بعد اگرچہ اور غزوات بھی ہوئے‘ مثلاً غزوئہ مریسیع اور غزوئہ بنی مصطلق وغیرہ‘ لیکن قرآنِ مجید میں ان کا ذکر موجود نہیں ہے. 

۶ ھ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا اور یہ نبی اکرم کی اس جدوجہد میں ایک بڑے اہم سنگ میل (Land :Mark) کی حیثیت رکھتا ہے. قرآن حکیم اسے فتح مبین سے تعبیر کرتا ہے‘ اس لئے کہ یہ اہم واقعہ فتح مَکّہ کی تمہید ثابت ہوا. چنانچہ صلح حدیبیہ پر ایک پوری سورۃ‘ سورۃ الفتح کے نام سے موجود ہے جس کا آغاز ان الفاظِ مبارکہ سے ہوتا ہے: اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ اس کے بعد ۷ ھ میں غزوئہ خیبر ہوا لیکن قرآن مجید میں اس کے حالات و واقعات کا ذکر موجود نہیں ہے.

۸ھ میں ایک جانب تو جنگ موتہ ہوئی اور سلطنت ِ روم کے ساتھ مسلمانوں کے ٹکرائو کا آغاز ہوا‘ اس کا ذکر قرآنِ مجید میں نہیں ہے‘ اور دوسری جانب فتحِ مَکّہ جیسا اہم واقعہ ہوا‘ تاہم اس پر بھی قرآنِ مجید میں صراحتاً کہیں گفتگو نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کا ضمناً ذکر سورۃ التوبۃ میں ملتا ہے. البتہ اسی سورۃ میں غزوئہ حنین کا ذکر‘ جسے فتح مَکّہ ہی کا تکملہ یا تتمہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ نام لے کر کیا گیا ہے. اس سلسلے کی آخری کڑی یا یوں کہئے کہ سلسلۂ غزوات کا نقطۂ عروج وہ ہے جسے ہم غزوئہ تبوک کے نام سے جانتے ہیں. سورئہ توبہ میں نہایت تفصیل کے ساتھ اس غزوہ کے حالات و واقعات بھی بیان ہوئے ہیں اور ان پر بڑ ا مفصل تبصرہ بھی موجود ہے. یہ ہے اجمالی طور پر اِن غزوات کی تاریخ وار ترتیب کہ جو ہجرت کے بعد آٹھ سالوں کے دوران حیات ِنبوی میں واقع ہوئے. اب اس سے پہلے کہ ہم ان غزوات کا جو ذکر قرآنِ حکیم میں آیا ہے اور ان کی جن اہم باتوں کی طرف قرآنِ مجید میں توجہ دلائی گئی ہے‘ ان پر جستہ جستہ غور کرنا شروع کریں‘ مناسب یہ ہوگا کہ تمہیدی طور پر اپنے ذہن میں اس صورت ِ حال کا ایک نقشہ قائم کر لیا جائے جس سے آنحضور اور آپؐ کے صحابہ مدینہ میں دوچار تھے اور یہ کہ کس طرح آپ نے غلبۂ دینِ حق کے اس مشن کو‘ جسے سورۃ الصف میں آپ :کا مقصد ِ بعثت قرار دیا گیا ‘ مدنی دَور میں درجہ بدرجہ تکمیل تک پہنچایا.