اس حوالے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اس دَور میں ہمارے بعض دانش وروں اور اہلِ علم نے سیرتِ طیبہ کے ان غزوات کے معاملے میں جو معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا ہے کہ یہ صرف دفاعی جنگ تھی ورنہ اسلام اپنے غلبے کے لئے جنگ اور خون ریزی کے راستے کو اختیار نہیں کرتا‘ یہ درست نہیں ہے. مغرب سے یہ بات دراصل کچھ اس انداز میں طعنے کے طور پر ہمارے بارے میں کہی گئی اور یہ الزام کچھ اس شدت کے ساتھ لگایا گیا کہ ع ’’بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے‘‘ کہ ردّعمل کے طور پر ہمارے ہاں سے ایک نہایت معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا گیا اور یہ انداز بالخصوص ان طبقات نے اختیار کیا جو مغرب کی مادّی اور سائنسی ترقی سے ذہنی طور پر مرعوب تھے. اس میں تو ہرگز کوئی شک نہیں کہ ابتداء بہرحال اہل مَکّہ کی طرف سے ہوئی‘ لیکن وہ ابتدا ء ان معنوں میں تھی کہ انہوں نے مَکّہ میں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور انہیں ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا. اس اعتبار سے گویا کہ مشرکین مَکّہ کی طرف سے تو جنگ کا اعلان پہلے سے تھا. یہ بات دوسری ہے کہ مَکّی دَور میں اہل ایمان کے ہاتھوں کو باندھ دیا گیا تھا. انہیں حکم تھا : کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر پابندی تھی اور انہیں اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی. لیکن پھر ایک وقت آیا کہ وہ اجازت آگئی. جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ دوران سفر ہجرت سورۃ الحج کی یہ آیت نازل ہوئی : 

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ (آیت۴۰

’’آج اجازت دی جا رہی ہے ان کو کہ جن پر جنگ ٹھونسی گئی تھی‘ اس لئے کہ ان پر ظلم کیا گیا تھا. (اب وہ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ ان کی نصرت پر قادر ہے. وہ لوگ جو اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے (جو گھر بار کو چھوڑ کر ترکِ وطن پر مجبور کر دیئے گئے) صرف اس جرم کی پاداش میں کہ انہوں نے یہ کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے.‘‘

گویا کہ اس معنی میں اگر کہا جائے کہ آغاز مشرکینِ مَکّہ کی طرف سے ہوا تو بات غلط نہیں ہے‘ لیکن اگر اس کے معنی یہ سمجھے جائیں کہ مدینے پر حملہ بھی یک طرفہ طور پر انہی کی جانب سے تھا اور مسلمانوں نے مدافعانہ جنگ لڑی ہے تو یہ بات صحیح نہیں ہے. حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کو تمکن عطا فرمایا اور مسلمانوں کو ایک مرکز میسر آگیا تو آپؐ نے مَکّے کی طرف اقدام کا آغاز کر دیا. مَکّے کی جانب آنحضور کی اوّلین پیش قدمی کس طور سے ہو سکتی تھی‘ اسے اس واقعے کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ ؓ :عمرے کے لئے مَکّے تشریف لے جاتے ہیں. وہاں وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں. واضح رہے کہ یہ واقعہ غزوئہ بدر سے پہلے کا ہے. ابوجہل پوچھتا ہے یہ کون صاحب ہیں. بتایا جاتا ہے کہ یہ سعدبن معاذ ؓ ہیں. تو وہ بپھر کر غصے میں کہتا ہے کہ تم نے ہمارے بھگوڑوں کو پناہ دی ہے اور اگر تم لوگوں نے انہیں اپنے ہاں سے نکال باہر نہ کیا تو ہم بیت اللہ میں تمہارا داخلہ بند کر دیں گے. اس کا فوری جواب جو حضرت سعد بن معاذ ؓ نے دیا وہ یہ تھا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تمہاری اس تجارتی شاہراہ کو بند کر دیں 
گے جو تمہاری رگِ جاں کی حیثیت رکھتی ہے اور جو مدینے کے قریب سے ہو کر گزرتی ہے. ابوجہل کی دھمکی کے جواب میں فوری طور پر حضرت سعد بن معاذ ؓ کا ذہن اس جانب منتقل ہو گیا. آنحضور نے قریش مَکّہ کے ساتھ یہی معاملہ کیا.