آپؐ تین سو تیرہ جاں نثار ساتھیوں کی معیت میں مدینہ سے نکلے اور ذرا باہر نکل کر اور ایک رائے کے مطابق مدینہ کے اندر ہی (یہ کچھ اہم تاریخی واقعات ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے) ایکمجلس شوریٰ منعقد کی اور وہاں مسئلہ یہ رکھا کہ ایک طرف تو قافلہ ہے جو قریش کے سردار ابوسفیانؓ (جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے) کے زیرقیادت شام سے آ رہا ہے‘ اس کے ساتھ کل پچاس محافظ ہیں‘ اور دوسری جانب ایک لشکر ہے جو مَکّے سے نکلا ہے‘ اب تم لوگ سوچ کر مشورہ دو کہ ہمیں کس طرف کا رخ کرنا چاہئے‘ کس کی طرف بڑھنا چاہئے. یہ انداز درحقیقت آپؐ نے اپنے ساتھیوں کے عزم و ہمت (morale) کا اندازہ کرنے کے لئے اختیار فرمایا تھا کہ ان کے اندر اللہ کی راہ میں سرفروشی اور جانفشانی کا جذبہ کس درجے میں ہے. حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس موقع پر تقریر فرمائی. یہ تقریر جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے لبریز تھی.

آنحضور نے ایک خاص سبب سے اس تقریر کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی. حضرت عمرؓ نے تقریر فرمائی‘ آپؐ نے اُدھر بھی کوئی خصوصی التفات نہیں فرمایا. اس کے بعد حضرت مقدادؓ نے تقریر کی. ان کی تقریر اس اعتبار سے قابل ذکر ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہمیں آپ اصحابِ موسیٰ ؑپر قیاس نہ کیجئے کہ جنہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ : اذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ آپؐ جدھر کا بھی ارادہ رکھتے ہوں بسم اللہ کیجئے! کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے ذریعے سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما دے… لیکن آنحضور پھر بھی ابھی کچھ منتظر سے تھے. اس پرحضرت سعد بن عبادہؓ : کھڑے ہوئے جو رؤسائِ انصار میں نمایاں مقام کے حامل تھے. وہ چونکہ خزرج کے سردار تھے لہٰذا مدینے میں گویا کہ ان کی حیثیت سب سے بڑھ کر تھی. انہوں نے اس بات کو بھانپتے ہوئے کہ آنحضور کس چیز کے انتظار میں ہیں‘ کھڑے ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ : کا روئے سخن ہماری طرف ہے.

اس معاملہ کا پس منظر جان لینا چاہئے کہ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر ہونے والا وہ قول و قرار جو آنحضورؐ اور اہل مدینہ کے درمیان ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں مدینہ دارالہجرت بنا‘ اس میں یہ شق تو موجود تھی کہ مدینے پر اگر کوئی حملہ آور ہو گا تو انصار آنحضور کا ساتھ دیں گے اور آپؐ کی طرف سے مدافعت کریں گے‘ لیکن ایسی کوئی صورت کہ مدینے سے باہر نکل کر کہیں اگر جنگ کا معاملہ پیش آ جائے تو اس میں آنحضور کا ساتھ دینے یا نہ دینے کی بات اس قول و قرار میں زیربحث نہیں آئی تھی اور کوئی معاہدہ اس بارے میں طے نہیں پایا تھا. یہی وہ بات تھی کہ جس کی وجہ سے نبی اکرم کی نگاہیں بار بار انصار کی طرف اٹھ رہی تھیں اور آپ انتظار میں تھے کہ ان کی طرف سے بھی کوئی بات 
اس موقع پر سامنے آئے… اس پس منظر میں حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ !ہم آپ پر ایمان لا چکے ہیں‘ ہم نے آپ کو اللہ کا رسول مانا ہے. یہ گویا ان کی جانب سے اس حقیقت کا اظہار تھا کہ یہ چیز اب اہمیت کی حامل نہیں رہی کہ بیعت عقبہ اولیٰ میں یا ثانیہ میں کیا طے ہوا تھا اور کیا طے نہیں ہوا تھا. صورت حال یہ ہے کہ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے‘ آپؐ :کو رسول مانا ہے‘ اب آپ ؐ جدھر کا بھی حکم دیں گے ہم حاضر ہیں. اگر آپؐ : ہمیں حکم دیں گے کہ ہم اپنی سواریوں سمیت سمندر میں چھلانگ لگا دیں تو ہم حاضر ہیں‘ اور اگر آپ ہمیں برک الغماد تک چلنے کا حکم دیںگے تو ہم اپنے اونٹوں کو مسلسل دوڑاتے اور لاغر کرتے ہوئے وہاں تک پہنچا دیں تو ہم ان شاء اللہ آپ کے اس حکم کی بھی تعمیل میں کوئی کمی نہیں کریں گے. آنحضور نے جب حضرت سعد بن عبادہ ؓ :کی یہ جذبات پرور تقریر سنی تو آپؐ :کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا. یہ درحقیقت اصحاب رسول کی جانب سے جاں نثاری اور دین کے لئے سرفروشی اور جانفشانی دکھانے کے عزم کا اظہار تھا کہ وہ اللہ کے رسول کے مشن کی تکمیل کی خاطر اپنی جان و مال کو قربان کر دینا باعث سعادت سمجھتے تھے.