سورۃ الانفال کی ان ابتدائی اورآخری آیات کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سورئہ مبارکہ کے اوّل و آخر کے مابین بڑا گہرا معنوی ربط موجود ہے اور اس سے اس جانب بھی رہنمائی ملتی ہے کہ یہ پوری سورئہ مبارکہ بیک وقت ایک مربوط خطبے کی حیثیت سے نازل ہوئی. آگے چلئے! غزوئہ بدر سے جو صورتِ حال پیدا ہوئی اس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ آس پاس کے قبائل پر مسلمانوں کا رعب اور دبدبہ قائم ہو گیا اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی. لیکن اگلے ہی سال صورتِ حال اس کے برعکس ہو گئی. اہل مَکّہ نے بدر کی شکست کے بعد مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے اپنی پوری قوّتوں کو جمع کیا. انتقام لینا عربوں کی گھٹی میں شامل ہے. اپنے ستر سربرآوردہ لوگ جن کی لاشوں کو وہ میدانِ بدر میں چھوڑ آئے تھے‘ ان کے انتقام کی آگ قریش مَکّہ کے سینوں میں اندر ہی اندر سلگ رہی تھی. پورے اہتمام اور پوری تیاری کے ساتھ اگلے ہی سال ۳ ہجری کے ماہِ شوال میںتین ہزار کا لشکر جرار اب براہِ راست مدینے پر حملہ آور ہوتا ہے. لشکر کی خبر سن کر آنحضورمشاورت طلب فرماتے ہیں.حضور کا اپنا رجحان یہ تھا کہ مدینہ منورہ کے اندر محصور ہو کر مقابلہ کیا جائے. حسن اتفاق کہئے یا سوئے اتفاق کہ یہی رائے منافقین کے سردار عبد اللہ بن اُبی کی تھی. لیکن مسلمانوں میں سے کچھ نوجوان جن کے دل شوقِ شہادت اور جذبۂ جہاد سے معمور تھے‘ ان کا جوش اور جذبہ اس درجے تھا کہ انہوں نے اس پر زور دیا اور اصرار کیا کہ کھلے میدان میں جا کر جنگ کی جائے. نبی اکرم نے ان کے اس جذبۂ ایمانی کا لحاظ رکھا اور اپنی رائے پر ان کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا. دامنِ اُحد میں مقابلہ ہوا. اس موقع پر پہلی مرتبہ نفاق کا عملی ظہور ہوتا ہے. اگرچہ غزوئہ بدر کے بیان میں بھی قرآن مجید نشان دہی کرتا ہے کہ اُس وقت بھی ایسے کچھ لوگ موجود تھے جو یہ چاہتے تھے کہ لشکر کفار کا مقابلہ کرنے کی بجائے ابوسفیان جس قافلہ کو لے کر شام سے آ رہے تھے اس کا تعاقب کیا جائے. چنانچہ اس پر قرآن مجید نے اسی اعتبار سے تنقید بھی کی کہ ان لوگوں کو شاید دنیا زیادہ عزیز تھی‘ یا پھر اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینا ان کے نزدیک کچھ اتنا زیادہ خوش آئند نہ تھا ‘لیکن یہ ابھی ابتدا ء تھی اور مرضِ نفاق ابھی پوری طرح ظاہر نہیں ہوا تھا. 

ابھی تک جو معاملہ صرف ضعف ایمان کا تھا اگلے سا ل غزوئہ اُحد کے موقع پر وہ نفاق ایک ادارے کی حیثیت سے پوری طرح سامنے آتا ہے کہ عین اس وقت جب نبی اکرم ایک ہزار کی نفری لے کر مدینہ منورہ سے نکلے اور ابھی میدانِ جنگ تک نہیں پہنچے کہ عبدا للہ بن اُبی بن سلول اسی بات کو بہانہ بنا کر تین سو اشخاص کو لے کر مدینہ واپس چلا جاتا ہے کہ چونکہ میری رائے پر عمل نہیں ہوا‘ مدینے کے اندر رہ کر چونکہ مقابلہ نہیں کیا جا رہا لہٰذا ہم ساتھ نہیں دیں گے .اور اب دامنِ اُحد میں محمد رسول اللہ: کے پاس ایک ہزار کی نفری میں سے سات سو افراد باقی رہ جاتے ہیں.اس جنگ کی تفصیل بیان کرنا یہاں ہمارے پیش نظر نہیں ہے‘ صرف بعض واقعات اور ان کے نتائج کی جانب مختصر اشارہ مقصود ہے.پہلے ہی ہلے میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گئی‘ کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے‘ لیکن پھر نبی اکرم کے ایک حکم کی خلاف ورزی جو بعض مسلمانوں سے صادر ہوئی ‘اس کا ایک فوری نتیجہ یہ سامنے آیا کہ فتح عارضی طور پر شکست میں تبدیل ہو گئی. ستر صحابہ رضی اللہ عنہم کا شہید ہو جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا. ان ستر میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب بھی شامل تھے اور حضرت مصعب بن عمیر بھی‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہما. وہ مصعب کہ جن کی دعوت و تبلیغ اور قرآن مجید کی تعلیم و تدریس کے نتیجے میں اہل یثرب کی ایک بڑی تعداد ایمان لے آئی تھی اور مدینہ منورہ کو دار الہجرت بننے کا شرف حاصل ہوا تھا. ستر صحابہؓ نے میدانِ اُحد میں جامِ شہادت نوش کیا. خود آنحضور کے دندانِ مبارک شہید ہوئے‘ آپؐ پر کچھ دیر کے لئے غشی طاری ہوئی. یہ بات اڑا دی گئی کہ آنحضور شہید ہو چکے ہیں. مسلمانوں کی ہمتیں جواب دے گئیں یہاں تک کہ حضرت عمر نے بھی تلوار پھینک دی. ان سارے حالات و واقعات کا ظاہر بات ہے کہ تفصیلاً بیان یہاں ممکن نہیں ہے.

قرآن مجید نے غزوئہ اُحد کے حالات پر بڑا مفصل تبصرہ فرمایا ہے. ان میں سے بعض آیات کا مطالعہ ہم ان شاء اللہ ابھی کریں گے. اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ غزوئہ بدر کے بعد قبائل عرب پر مسلمانوں کی جو دھاک بیٹھ گئی تھی وہ جاتی رہی. میدانِ بدر میں تین سو تیرہ کو جو فتح مبین حاصل ہوئی تھی اس کا وہ تاثر برقرار نہ رہا‘ اس لئے کہ غزوئہ اُحد کے بعد صورت یہ سامنے آئی کہ وہاں (بدر میں ) اگر ستّر کفار قتل ہوئے تھے تو یہاں (دامنِ اُحد میں) ستّر مسلمان شہید ہو گئے. اس طرح وہ دبدبہ اور رعب جو مسلمانوں کا قائم ہوا تھا‘ وہ اب جاتا رہا. قریش مَکّہ آس پاس کے لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ یہ فتح وشکست کا معاملہ تو اتفاق ہوتا ہے‘ کبھی کوئی ایک فریق غالب آ جاتا ہے اور کبھی فتح دوسرے کا مقدر بنتی ہے‘ اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ محمد واقعتا اللہ کے رسول ہیں اور ان کو اللہ کی خصوصی تائید حاصل ہے. تو غزوئہ اُحد کے بعد کے ایک دو سال مسلمانوں کے لئے بڑی ہی آزمائش کے تھے. ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اطراف و جوانب میں سب لوگوں کی ہمتیں بڑھ گئی ہیں. چنانچہ اب مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں‘ تاخت و تاراج ہو رہا ہے‘ ان پر چھاپے مارے جا رہے ہیں. مسلمانوں کے لئے یہ وقت بڑی سختی کا تھا اور اس سختی کا نقطۂ عروج ہے غزوئہ احزاب جو غزوئہ اُحد کے دو سال بعد پیش آیا.