جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے‘ غزوئہ اُحد کے بعد صورتِ حال یکسر تبدیل ہو گئی. اُحد کے میدان میں مسلمانوں کو جو دھچکا لگا تھا اس سے طبعی طور پر مسلمانوں کی ہمتیں کچھ پست ہوئیں اور دشمنوں کے حوصلے بلند ہوئے. انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ اگر کچھ مزید تیاری کے ساتھ ایک مجتمع کوشش کی جائے اور مل جل کر زور لگایا جائے تو اس پودے کو اکھاڑا جا سکتا ہے‘ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دے کر یہ جھگڑا ہمیشہ کے لئے ختم کیا جا سکتا ہے. چنانچہ غزوئہ اُحد کے دو سال بعد ۵ ھ میں اسلام کے چراغ کو گل کرنے کی خاطر عرب کی پوری مشرکانہ قوت مجتمع ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئی. اس واقعے کو ہم غزوئہ احزاب کے نام سے جانتے ہیں. اسے غزوئہ احزاب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں جو لوگ حملہ آور ہوئے تھے وہ کسی ایک قبیلے یا کسی ایک گروپ سے متعلق نہیں تھے بلکہ بے شمار قبائل‘ جن میں عربوں کے علاوہ یہود کے قبائل بھی شامل تھے‘ متحد ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے. وہ مشرق سے بھی آئے اور مغرب سے بھی آئے‘ ان علاقوں سے بھی آئے جو بلندی پر واقع ہیں اور اس جانب سے بھی آئے جو مدینہ کے مقابلے میں نشیب میںو اقع ہے‘ کم و بیش بارہ ہزار کا لشکر جرار مسلمانوں کے خلاف مجتمع ہوا. ان حملہ آوروں میں بنو قینقاع بھی شامل تھے جو غزوئہ بدر کے بعد اپنی عہد شکنی کے باعث جلا وطن کئے گئے تھے‘ اور بنو نضیر بھی تھے کہ جنہیں ۴ ھ میں مدینہ سے نکال باہر کیا گیا تھا اور وہ خیبر میں جا کر آباد ہو گئے تھے. مدینہ کے مشرق میں نجد کی طرف سے بنوغطفان چڑھائی کرتے ہوئے آئے جبکہ نیچے کی طرف سے یعنی مَکّہ سے قریش کی فوجیں حملہ آور ہوئیں. گویا آس پاس کے تمام مشرک قبائل مجتمع ہو گئے. مدینے کی چھوٹی سی بستی پر جس میں چند سو گھر آباد ہوں گے‘ اتنا بڑا حملہ ایک نہایت غیر معمولی بات تھی. ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کہیں چٹیل میدان میں کوئی چراغ جل رہا ہو اور اس کو بجھانے کے لئے ہر طرف سے جھکڑ چل رہے ہوں. حقیقت یہ ہے کہ آنحضور: کی حیاتِ طیبہ کے دوران مسلمانوں کی اجتماعی ابتلاء و آزمائش کے اعتبار سے یہ کٹھن ترین مرحلہ تھا. اس موقع پر اہل ایمان کا ایمان پوری طرح آزما لیا گیا ‘ اور جن کے دلوں میں نفاق کا مرض تھا ان کی بھی بھرپور آزمائش ہو گئی‘ جس کے نتیجے میں ان کا نفاق پورے طور پر ظاہر ہو گیا‘ وہ نفاق جو دلوں میں پوشیدہ تھا منافقین کی زبانوں پر جاری ہوگیا. بعد میں یہ غزوہ محمد رسول اللہ کی اس انقلابی جدوجہد میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا.