قرآن حکیم میں اس غزوے کا ذکر سورۃ الاحزاب کے دوسرے اور تیسرے رکوع میں ہے. وہاں اس صورت حال کی مکمل نقشہ کشی کر دی گئی ہے کہ یہ موقع مسلمانوں کے لئے ابتلاء اور آزمائش کا نقطہ ٔ:عروج تھا. جس طرح ذاتی سطح پر طائف کے دن محمد رسول اللہ پر مصائب اور تکالیف کا معاملہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا‘ بعینہٖ اسی طرح کا معاملہ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے لئے غزوئہ احزاب کے موقع پر ہوا. چنانچہ قرآن حکیم میں اس غزوہ کا ذکر جن آیات میں آیا ہے ان میں سے چند آیات کا یہاں ترجمہ کر لینا مفید ہو گا تاکہ اس صورت حال کی صحیح تصویر خود آیاتِ قرآنی کے ذریعے سے ہمارے سامنے آ جائے جس سے اہل ایمان دو چار تھے. فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾ 
اس پہلی آیت میں قرآن مجید نے اپنے مخصوص اسلوب کے مطابق اس پورے غزوے کے دوران جو حالات و واقعات پیش آئے اور اس کا جو نتیجہ نکلا ان سب کی طرف نہایت جامعیت کے ساتھ اشارہ کر دیا ہے:

’’اے اہل ایمان! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم پر لشکر حملہ آور ہوئے تھے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر بھیجے کہ جنہیں تم نہیں دیکھتے تھے‘ اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کر رہے تھے اسے دیکھ رہا تھا‘‘.