فتح و نصرت کا نقطہ ٔآغاز صُلح حُدیـبیہ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا سورۃ الفتح کے آخری رکوع کی روشنی میں


نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
فَاَعُوذ بِاللّٰہ مِنَ الشَّیطٰن الرَّجیْم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 


لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿۲۷﴾ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۲۹﴾ … ج

یہ سورۃ الفتح کے آخری رکوع کی آیات ہیں.سورۃ الفتح کے بارے میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ وہ تقریباً ُکل کی کل صلح حدیبیہ کے گرد گھومتی ہے. سیرتِ مطہرہ میں یہ ایک اتنا اہم واقعہ تھا کہ اس پر ایک پوری سورئہ مبارکہ نازل ہوئی ‘جس کا آغاز ان الفاظِ مبارکہ سے ہوا: اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ ’’(اے نبی !) ہم نے آپ کو ایک کھلی فتح عطا فرمائی.‘‘ عام طور پر سطح بین لوگوں کے لیے فتح مکہ کاواقعہ زیادہ اہم ہے ‘لیکن قرآن مجید پر اگر غور کیا جائے‘ حالات کے اصل رُخ کو سمجھا جائے اور حالات کی رفتار کی نبض پر اگرہاتھ ہو تو واقعتا یہ بات سامنے آتی ہے کہ فتح ِعظیم اور فتح مبین دراصل صلح ُحدیبیہ ہی تھی کہ جس کے بعد حالات اس تیزی سے مسلمانوں کے حق میں تبدیل ہوئے کہ یہ صلح درحقیقت فتح مکہ کی تمہید ثابت ہوئی ‘جس کے نتیجے میں سرزمین ِعرب پر اسلام کا بول بالاہوگیا.

غزوئہ احزاب ۵ ھ میں واقع ہوا. یہ درحقیقت مشرکین عرب کی جانب سے نبی اکرم کا راستہ روکنے کی ایک ّمتحدہ کوشش تھی.اس کے لیے اتنی بھرپور تیاری ہوئی تھی‘ اتنا اہتمام ہوا تھا‘ اتنے مختلف گروہ اور اتنی مختلف قومیں اس میں جمع ہوئی تھیں کہ اس کا دوبارہ پھراسی اہتمام کے ساتھ اعادہ تقریباً ناممکن تھا. نبی اکرم کا دست مبارک حالات کی نبض پر تھا. آپؐ نے صورتِ حال کا صحیح صحیح اندازہ کر لیا تھا. چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے تائید ِغیبی اور معجزانہ امداد کے ذریعے اس غزوہ میں فتح عطا فرما دی اور دشمنوں کے لشکروں کو بے نیل ِمرام واپس لوٹنا پڑا تو حضور نے یہ خبر دے دی کہ: لَنْ تَّغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِکُمْ ھٰذَا اے مسلمانو! اب قریش دوبارہ تم پر حملہ آور نہیں ہوں گے.گویا آپؐ نے مسلمانوں کو صاف الفاظ میں فرما دیا کہ کفار کی قوت اب ٹوٹ چکی ہے‘ ان کی ہمت جواب دے چکی ہے‘ یہ آخری بار تھی کہ انہوں نے اپنی ہمت کو مجتمع کر کے اتنا بھرپور حملہ کیا تھا. ساتھ ہی آپؐ نے یہ نوید بھی سنائی : وَلٰکِنَّکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ کہ اب صورتِ حال تبدیل ہو چکی ہے(Tables have been turned) اب تم اقدام کرو گے‘ آئندہ آغاز تمہاری جانب سے ہو گا. اس سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ حالات کی رفتار پر نبی اکرم کی پوری نگاہ تھی‘ پوری صورتِ حال آپؐ کے سامنے عیاں تھی. چنانچہ اگلے ہی سال نبی اکرم نے عمرے کے ارادے سے مکہ کا سفر اختیار فرمایا.