مسلمانوں کا سفر ِعمرہ . مشرکین مکہ ّکی طرف سے مزاحمت

چشم ِتصور سے دیکھئے‘ مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں‘ ہتھیار اگرچہ ساتھ لیے ہیں لیکن نمایاں نہیں ہیں‘ تلواریں نیاموں کے اندر ہیں‘ َہدی کے جانور ساتھ ہیں. نبی اکرم کے ساتھ چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین محو ِسفر ہیں‘ مکہ کی طرف منزل بہ منزل سفرطے ہو رہا ہے. ادھر مکہ میں خبر پہنچی تو کہرام مچ گیا. مسلمانوں کو عمرے کے لیے آنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ یہ چودہ سو مسلمان کس ارادے سے آرہے ہیں؟ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اہل ِمکہ کے لیے ایک عجیب اور پیچیدہ صورتِ حال پیدا ہو گئی. مسلمانوں کو مکہ میں داخلے کی اگر اجازت دیتے ہیں تو یہ گویا شکست تسلیم کرنے کے مترادف ہے. انہیں اگر روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی حالت بھی نگاہوں کے سامنے ہے کہ اب اتنے طاقتور نہیں رہے کہ محمد اور ان کے ساتھیوں کو روک سکیں. لیکن بہرحال جو بھی قو ت تھی اسی پر انحصار کرتے ہوئے اپنی ہمت کو مجتمع کر کے انہوں نے یہ طے کیا کہ جس طرح بھی ہو اِس وقت تو ہم محمد( ) کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے. 

حضور حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر پڑائوڈال دیتے ہیں. سلسلۂ جنبانی کا آغاز ہوتا ہے. سفارتیں آنی شروع ہوئیں‘ ادھر مکہ سے کچھ لوگ آئے‘ انہوں نے کوشش کی کہ مسلمانوں کو مرعوب کریں‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ خود مرعوب ہو کر واپس لوٹے. سہیل بن عمرو‘ قریش ِمکہ کا ایک بہت بڑا خطیب جا کر لوگوں کو خبر دیتا ہے کہ لوگو! میں نے بڑے بڑے شہنشاہوں کے دربار دیکھے ہیں‘ لیکن جس طرح محمد ( ) پر ایمان لانے والے اُن پر پروانہ وار نچھاور ہونے کو تیار ہیں وہ عزت و احترام اور وہ محبت میں نے کبھی کسی انسان کی انسانوں کے دلوں میں نہیں دیکھی. لیکن بہرحال کفارِ مکہ اس طرح فوری طور پر اپنی آن سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے. مسلمانوں کے: کیمپ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سفیر کی حیثیت سے بھیجا جاتا ہے. ان کی واپسی میں تاخیر ہو جاتی ہے. خبر اڑتی ہے کہ شاید وہ شہید کر دیے گئے ہیں. اس پر حضور بیعت لیتے ہیں‘ جسے سیرت کی کتابوں میں ’’بیعت ِ رضوان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. چودہ سو صحابہ نبی اکرم کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اور خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینے کا عزم کرتے ہیں. اس واقعے کا ذکر اسی سورئہ مبارکہ میں موجود ہے : 

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃ...  (آیت۱۸
’’اللہ تعالیٰ راضی ہو گیا ان اہل ایمان سے جنہوں نے (اے نبی !) آپ کے ہاتھ پر بیعت کی درخت کے نیچے…‘‘

اور: 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ (آیت ۱۰
’’(اے نبی !) جن لوگوں نے آپ سے بیعت کی ہے انہوں نے درحقیقت اللہ سے بیعت کی ہے‘ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے.‘‘

بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خبر بے بنیاد تھی.