یہ صلح اس اعتبار سے بڑی اہم ہے کہ اس کے بعد نبی اکرمﷺ کو دو سال کا عرصہ ایسا ملا جس میں آپؐ نے کئی محاذوں پر اپنے کام کو وسعت دی. جنگ و جدال کا خاتمہ ہوگیا. قریش کے ہاتھ گویا بندھ گئے اور محمدﷺ کے ہاتھ کھل گئے.دعوت و تبلیغ کا عمل پوری شدت کے ساتھ جاری ہو گیا. وہ اصحابِ ُصفہ ّجن کی تربیت مسجد ِنبویؐ میں ہو رہی تھی اب ان کے وفود تشکیل دیے جا رہے ہیں‘ جزیرہ نمائے عرب کے طول و عرض میں تبلیغی سرگرمی اپنے پورے نقطہ ٔعروج کو پہنچ گئی ہے. یہی وہ دَور ہے کہ جس میں نبی اکرمﷺ نے یہود کی قو ت پر آخری اور بھرپور وار کیا. اُس وقت تک یہود کے تینوں قبیلے مدینہ منورہ سے نکل چکے تھے . بنو قینقاع کو غزوئہ بدر کے فوراً بعد ۲ ھ میں اور بنونضیر کو ۴ھ میں دیس نکالا دیا گیا تھا‘ جبکہ بنو قریظہ کو ان کی عہد شکنی کی پاداش میں سخت ترین سزا دی گئی تھی. ان کے جنگ کے قابل تمام مرد قتل کیے گئے تھے اور ان کا مال و اسباب مسلمانوں نے اپنی ملکیت میں لے لیا تھا. بہرحال یہود کی ساری بچی کھچی قوت اب خیبرمیں مجتمع ہو چکی تھی اور یہ اب یہود کے جلاوطن قبائل کا سب سے بڑا مرکز تھا. نبی اکرمﷺ نے ۷ھ میں اس پر حملہ کیا اور اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی.