غزوئہ حنین کا ذکر نامکمل رہے گا اگر ایک اہم واقعے کا ذکر نہ کیا جائے جس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سارے معاملات کس طرح بالکل انسانی سطح پر ہوئے. وہ ساری پیچیدگیاں اور وہ تمام مشکلات جو دنیا کی کسی بھی اجتماعی جدوجہد اور انقلابی عمل میں پیش آ سکتی ہیں‘ نبی اکرم کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑا. غزوئہ حنین میں جو مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیااس کی تقسیم میں نبی اکرم نے تالیف ِقلب کو ّمدنظر رکھتے ہوئے مکہ کے لوگوں کو کہ جو ابھی نئے نئے دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے تھے‘ دوسروں کی نسبت زیادہ حصہ دیا. منافقین کو آنحضور کے خلاف ہرزہ سرائی کا موقع مل گیا.باتیں کہی گئیں اور دھڑلے ّسے کہی گئیں. صورت حال کچھ ایسی تھی کہ فی الواقع جنگل کی آگ کی طرح وہ باتیں پھیل گئیں. اعتراض کرنے والوں کی زبانیں بے لگام ہوگئیں اور کھلے عام یہ کہا جانے لگا کہ ’’جب جان دینے اور خون نچھاور کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم لوگ یاد آتے ہیں اور جب مال کی تقسیم کا معاملہ ہوا تو اب اپنے بھائی بند اور اپنے ہم قبیلہ یاد آ گئے‘ مال کی تقسیم میں انہیں ترجیح دی گئی ہے‘‘. وغیرہ وغیرہ. اب یہ بات ایسی تھی کہ بظاہر کچھ ایسی خلافِ واقعہ بھی نہیں تھی. اس واقعہ کو صحیح پس منظر میں بھی دیکھاجا سکتا تھا اور غلط رُخ بھی دیا جا سکتا تھا.بات پھیلتے پھیلتے حضور کے کانوں تک بھی پہنچی. 

نبی اکرم کا تدبر دیکھئے. آپؐ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین: کو مجتمع کیا.تمام انصار ایک بڑے خیمے میں جمع ہوئے. آپؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا. پہلے اپنے احسانات کا ‘یا یوں کہیے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ‘جو آپؐ کے طفیل انصار پر ہوئے‘ تذکرہ فرمایا. اے معشرِانصار! کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ تم گمراہی پر تھے‘ اللہ نے میرے ذریعے تمہیں ہدایت دی؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے‘ اللہ نے میرے 
ذریعے تمہارے اندر محبت اور اتفاق پیدا کیا؟ انصار جواباً کہتے رہے : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !! حضور !بالکل ایسا ہی ہے.اے اللہ کے رسولؐ !آپ بالکل صحیح کہتے ہیں. اس کے بعد آپؐ نے خطاب کا رُخ بدلا. ہاں اے معشر انصار! تم یہ کہو کہ اے محمد( ) تمہیں تمہاری قوم نے اپنے گھر سے نکال دیا تھا‘ ہم نے تمہیں پناہ دی. تمہاری قوم تمہارے خون کی پیاسی تھی‘ ہم نے تمہاری حفاظت کی. اور میرا جواب ہو گا کہ ہاں‘ تم یہ صحیح کہہ رہے ہو‘ درست کہہ رہے ہو. تو اے معشر انصار! کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ لوگ بھیڑیں‘ بکریاں ‘ اونٹ اور دُنیوی مال و اسباب لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم ٌمحمدرسول اللہ( ) کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو…!!! انصار کی چیخیں نکل گئیں. بے اختیار ان کی زبانوں سے نکلا: رَضِیْنَا‘ رَضِیْنَا! … ہم راضی ہیں اس پر‘ ہم راضی ہیں. اس طرح آپ کے حسن ِتدبر ّکی بدولت ایک نہایت تشویش ناک صورتِ حال بالکل تبدیل ہو گئی اور مسلمانوں میں جوش و خروش اور جذباتِ ایمانی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی. بہرحال غزوئہ حنین کے بعد ‘جیسا کہ عرض کیا گیا‘ اندرونِ ملک عرب انقلابِ محمدیؐ :کی تکمیل ہو گئی.