اس سورئہ مبارکہ کے مضامین کا تجزیہ اصلاًتو سلسلہ وار درس میں آئے گا‘ تاہم آغاز میں اس کے مضامین کا ایک اجمالی تجزیہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. 

اس کا پہلا حصہ چھ آیات پر مشتمل ہے . ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کے بیان پر یہ چھ آیات میرے علم کی حد تک قرآن حکیم کا جامع ترین مقام ہے .اور یہی وہ اصل علم ہے جس کو ’’العلم‘‘ کہا جائے گا‘ اس لیے کہ دین کی جڑ بنیاد ایمان ہے اور ہم حقیقت ایمان پر بڑی مفصل بحثیں کر چکے ہیں 
(۱. اگرچہ ایمانیات میں تعدد ہے‘ اللہ پر ایمان‘ آخرت پر ایمان‘ رسالت پر ایمان‘ کتابوں پر ایمان‘ فرشتوں پر ایمان‘ لیکن اصل ایمان ’’ایمان باللہ‘‘ ہے. اسی لیے ’’ایمان مجمل‘‘ میں صرف ایمان باللہ ہی کا ذکر ہے : 

’’ آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘
چنانچہ مجملاً ایمان نام ہے ایمان باللہ کا. اور ایمان باللہ کا خلاصہ کیا ہے؟ اللہ کی معرفت! اور اُس کی معرفت ذات و صفات کے حوالے سے ہو گی. جامعیت کے اعتبار سے اور فہم و شعور کی اعلیٰ ترین سطح (highest level of consciousness) پر ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کا بیان ان چھ آیات میں ہے جو سور ۃ الحدید کے شروع میں واردہوئی ہیں. اس کی کچھ جھلک ہمیں سورۃ التغابن میں ملتی ہے‘ کچھ جھلک مکی سورتوں میںاور پھر سورۃ الشوریٰ میں ملتی ہے‘ لیکن اس ضمن میں جامع ترین اور بلند ترین بحث ان چھ آیات میں ہے. 

سورۃ الحدید کا دوسرا حصہ پانچ آیات (۷ تا ۱۱) پر مشتمل ہے. یہاں بھی جامعیت کی انتہا ہے کہ دین کے کل تقاضے صرف دو الفاظ ’’ایمان‘‘ اور ’’اِنفاق‘‘ کے حوالے سے آ گئے ہیں: 

اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ اَنۡفَقُوۡا لَہُمۡ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ ﴿۷﴾ 
یعنی اگر تم یہ دونوں تقاضے پورے کرتے ہو تو تمہارے لیے اجر کبیر ہے. اور اگر نہیں کرتے ہو تو پھر ملامت ہے‘ زجر ہے اور ڈانٹ ڈپٹ کا انداز ہے کہ: وَ مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ’’تمہیں کیا ہو گیا (۱) جو‘ اَب ’’حقیقت ِایمان‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں. ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں رکھتے!‘‘کیوں تمہارا اعتماد اور توکل اللہ کی ذات پر قائم نہیں ہے؟ وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِِ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے!‘‘تم اپنا مال اللہ کے راستے میں کیوں نہیں کھپاتے‘ کیوں نہیں لگاتے؟

تیسرا حصہ چار آیات (۱۲ تا ۱۵) پر مشتمل ہے جس میں اس تقسیم کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو میدانِ حشر میں ہو جائے گی. جن لوگوں نے بھی اس معاملے (ایمان اور انفاق) میں گریز کی راہ اختیار کی تھی وہ منافق قرار پائیں گے اور اہل ایمان سے اس طرح الگ کر دیے جائیں گے جیسے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ کر دیا جاتا ہے. میدانِ حشر میں ایک خاص مرحلہ ایسا ہے کہ جس میں مؤمنین صادقین اور منافقین میں تقسیم ہو جائے گی. ایک تقسیم تو مسلمان اور کافر کی ہے‘ جبکہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں میں پھر تفریق ہو گی کہ کون مؤمنین صادقین ہیں اور کون منافقین! مؤمنین صادقین کو اُن کے قلبی ایمان کی گہرائی کی نسبت سے نور عطا کیا جائے گا‘ جو کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ملے گا. حضور نے خبر دی ہے کہ اس نور میں اتنا فرق و تفاوت ہو گا کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ جیسے اس کی روشنی مدینہ منورہ سے صنعاء تک پہنچ جائے اور کسی کو اتنا نور ملے گا کہ جس سے صرف اس کے قدموں کے آگے روشنی ہو جائے. اس کی سادہ سی مثال ٹارچ کی ہے. اگر اندھیری رات میں آپ کسی پگڈنڈی پر چل رہے ہوں اور آپ کے ہاتھ میں چھوٹی سی ٹارچ ہو تو وہ بھی بہت بڑی نعمت ہے. اور اُس روز جو نورانبیائِ کرام علیہم السلامکو ملے گا یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکو عطا ہو گا اُس کا تو کیا ہی کہنا ہے! ظاہر ہے کہ اس نور میں اور ایک عام مسلمان کے نور میں بہت فرق و تفاوت ہو گا. بہرحال جن کے دلوں میں کچھ بھی ایمان ہو گا وہ ایک طرف اور جو ایمان سے بالکل خالی ہوں گے ‘یعنی منافق‘ وہ دوسری طرف ہو جائیں گے اور ان کے درمیان ایک دیوارحائل کر دی جائے گی. پھر اسی ضمن میں نفاق کی حقیقت اور نفاق کے مختلف مراحل بھی اسی حصے میں بیان ہوئے ہیں کہ کیسے یہ مرض آگے بڑھتا ہے. اس ضمن میں یہ جامع ترین مقام ہے.

سورئہ مبارکہ کاچوتھا حصہ بھی چار آیات (۱۶ تا ۱۹) پر مشتمل ہے. اس میں اصلاح کی ترغیب دی گئی ہے اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ اگر تم اپنے باطن میں جھانکو اور محسوس کرو کہ ایمانِ حقیقی موجود نہیں ہے تو بھی گھبرائو نہیں‘ ابھی مہلت ہے‘ کمر ہمت کسو اور اصلاحِ احوال کی کوشش کرو‘ ایمان کے حصول کی کوشش کرو. اس کے لیے راستہ اور طریقہ بھی بتا دیا گیا. یوں سمجھئے کہ ان چند آیات میں ’’سلوکِ قرآنی‘‘ جامعیت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے.

پھر پانچواں حصہ پانچ آیات (۲۰ تا ۲۴) پر مشتمل ہے. اس حصے میں حیاتِ دُنیوی اور حیاتِ اُخروی کا تقابل آیا ہے اور انسانی زندگی کے مختلف مراحل یعنی بچپن‘ اس کے بعد نوجوانی اور پھر جوانی کا دَور ‘ پھر ادھیڑ عمر اور پھر بڑھاپا‘ ان کو بڑی خوبصورت تمثیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو بہرحال ان مراحل سے گزر کر لامحالہ قبر میں جااترنا ہے . یہ زندگی ان مراحل سے گزر کر بہرحال ختم ہو جائے گی اور ایک ابدی زندگی آخرت کی ہے‘ جس میں انسان کو دو انجاموں میں سے کسی ایک انجام سے دوچار ہونا ہے. اس اعتبار سے حیاتِ دُنیوی اور حیاتِ اُخروی کا تقابل آ گیا. اور پھر یہ کہ حیاتِ دُنیوی میںانسان کو جو کچھ مصائب اور ناگوار حالات سے سابقہ پیش آتا ہے‘ اس کی اصل حقیقت کھول کر دکھائی گئی. 

اس سورئہ مبارکہ کا چھٹا حصہ صرف ایک آیت پر مشتمل ہے اور وہ ہے آیت ۲۵‘ جس کے بارے میں میرا یہ قول بہت سے احباب کے علم میں پہلے سے ہو گا کہ پوری دنیا کے تمام انقلابی لٹریچر میں اتنا ’’عریاں‘‘ انقلابی جملہ آپ کو نہیں مل سکتا جو سورۃ الحدید کی اس آیت میں ہے. یہاں اس انقلابِ عظیم اور اس کے تمام مراحل کا ذکر ہے جو قرآن برپا کرنا چاہتا ہے. ہم نے انبیاء کو بھیجا‘ کتابیں نازل کیں‘ شریعت اتاری اور پھر یہ میزان نازل فرمائی‘ آخر کس لیے؟ اس لیے تاکہ عدل اور انصاف قائم ہو. اب عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے انقلاب لانا پڑے گا. اس کے لیے جہاں ترغیب ہے‘ تشویق ہے‘ دعوت ہے‘ تعلیم ہے‘ وہاں لوہے کی طاقت بھی استعمال کرنی پڑے گی: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ ’’اورہم نے لوہا بھی اتارا‘‘. اسی آیت کے حوالے سے اس سورت کا نام سورۃ الحدید ہے. طاقت کے بغیر کبھی بھی نظام نہیں بدلا کرتا. اس کے بغیر عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکتا. طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے‘ جانیں دینی پڑتی ہیں. اور درحقیقت اللہ تعالیٰ اپنے ان جان نثار بندوں کا امتحان لے رہا ہے جو ایمان کے دعوے دار ہیں کہ آیا وہ اس نظامِ عدل و قسط کو قائم کرنے کے لیے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اور لوہے کی قوت ہاتھ میں لے کر میدان میں آتے ہیں یا نہیں! کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بات بالکل واضح کر دی گئی کہ انقلابی عمل میں لوہے کی طاقت بھی استعمال کرنی پڑے گی‘ اس کے بغیر vested interest کبھی بھی جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا.بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دلیل سے قائل ہو جاتے ہیں. ایسے سلیم الفطرت لوگ ہر معاشرے اور ہر طبقے میں ہوتے ہیں‘ لیکن بحیثیت ِمجموعی ہر نظام میں مستکبرین اور مترفین پر مشتمل جو مراعات یافتہ طبقہ ہوتا ہے وہ کسی صورت اپنی جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا‘ اس کے لیے طاقت کا استعمال لازمی ہے. 

اس سورئہ مبارکہ کا ساتواں اور آخری حصہ چار آیات (۲۶ تا ۲۹) پر مشتمل ہے. اس حصے میں جہاد و قتال اور انقلاب کے اینٹی کلائمکس یعنی رہبانیت کا ذکر ہے ؎ 

میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو‘ اللہ ہو‘ اللہ ہو!

اس رہبانیت کی نفی بھی کر دی گئی ہے کہ اگرچہ کچھ نیک دل لوگ اِدھر راغب ہو جاتے ہیں‘ لیکن درحقیقت وہ راستہ جس پر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے وفادار بندے چلیں‘ وہ رہبانیت کا راستہ نہیں ہے.