آگے فرمایا : یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ’’وہی زندہ رکھتا ہے اور مارتا ہے‘‘ .نوٹ کیجیے کہ زمین و آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے ‘ اگر میں یہ کہتا ہوں ’’ہم مرتے ہیں‘ ہم جیتے ہیں‘‘. گویا کہ موت اور زندگی کی نسبت ہم اپنی طرف کر رہے ہیں. یوں سمجھ لیجیے کہ یہ محجوبیت ہے‘ یعنی ہم پردے میں آ گئے‘ اوٹ میں آ گئے‘ اور یہی گمراہی ہے ‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے اور وہ جب چاہے گا ہم پر موت وارد کر دے گا. یہ کمالِ معرفت ہے .جیسے کسی نے کہا ہے ’’مردی و نامردی قدمے فاصلہ دارد‘‘ اسی طرح ہدایت میں اور ضلالت میں فرق صرف اتنا ہی ہے کہ ’’اللہ جلاتا ہے ‘ اللہ مارتا ہے ‘‘اور ’’ہم جیتے ہیں ‘ہم مرتے ہیں‘‘ . چنانچہ قرآن مجید میں کفار و مشرکین کا ایک قول نقل ہوا ہے‘ جسے ہم کہیں گے کہ یہ آج کے مادہ پرست ملحد انسان کا موقف ہے . فرمایا: وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ (الجاثیۃ:۲۴’’اور انہوں نے کہا زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے‘ ہم خود ہی جیتے اور خود ہی مرتے ہیں اور ہمیں نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ‘‘. یہاں ’’ نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا‘‘ میں نسبت اپنی طرف ہے کہ ہم جیتے ہیں‘ ہم مرتے ہیں. اگر نسبت بدل کر یہ کہا جائے کہ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ُ ’’وہی زندہ کرتا ہے (یا زندہ رکھتا ہے) اور وہی موت وارد کرتاہے‘‘ تو اس فعل کی نسبت اللہ کی طرف ہو گئی اور یہی ہدایت ہے‘ یہی معرفت ہے‘ یہی توحید ہے.

آیت کے آخر پر فرمایا: 
وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲﴾ ’’اور وہ ہر شے پر قادرہے.‘‘