میں نے عرض کیا تھا کہ معرفت الٰہی ہی درحقیقت انسان کی سب سے زیادہ مطلوب و مقصود شے ہونی چاہیے‘ اس لیے کہ جتنی معرفت ہو گی اتنا ہی درحقیقت ہمارا عملی رویہ بھی درست ہو گا. جتنا اللہ کی عظمت کا انکشاف ہو جائے گا اتنی ہی ہمارے اندر اللہ کے سامنے فروتنی اور سرافگندی کی کیفیت پیدا ہو جائے گی . کسی شاعر نے کہا ہے ع ’’ان کا غرور دیکھ کر بن گئے خاکسار ہم!‘‘ یہاں لفظ ’’غرور‘‘ تو مناسب نہیں ‘ ’’ان کا عروج دیکھ کر‘‘ کہہ لیجیے. جتنا اللہ کی عظمت کا انکشاف ہو گا اتنا ہی انسان کے اندر تواضع ‘ فروتنی اور گردن جھکا دینے کی کیفیت پیدا ہو گی. اس اعتبار سے اصل شے جو مطلوب و مقصود کے درجے میں ہے وہ معرفت ربّ ہے. بلکہ ہمارے ہاں بہت سے مفسرین اور صوفیاء نے ’’عبادتِ ربّ‘‘ اور ’’معرفت ِربّ‘‘ کو مترادف قرار دیا ہے. چنانچہ وہ وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت) کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْرِفُوْنِ‘‘ یعنی ’’میں نے نہیں پیدا کیا ہے انسانوں کو اور جنوں کو مگر اس لیے کہ میری معرفت حاصل کریں‘‘. اس لیے کہ معرفت حاصل ہو جائے گی تو اس کا منطقی نتیجہ عبادت کی صورت میں نکلے گا .اگر کسی شخص کو اللہ کے حسن و جمال کی کوئی جھلک کبھی نصیب ہو جائے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی اور کے حسن کا گرویدہ ہو !کسی اور کی محبت اس کے دل میں کیسے گھر کرے گی! ابن سینا کا ایک بڑا پیارا جملہ ہے ’’اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میں سے تمہیں کوئی حصہ ملے تو تمہیں اپنی خلوتوں میں ریاضت کرنی پڑے گی‘ توجہ کرنی ہو گی‘ لو لگانی ہو گی‘ مراقبے کرنے ہوں گے. ہو سکتا ہے کبھی کوئی کرن تمہیں بھی نصیب ہو جائے‘‘. لیکن واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کبھی حقیقی معرفت ِربّ کی کوئی چمک اور اس کی کوئی جھلک اگر مل جائے تو پھر اس کے لیے کسی اور سے دل لگانے اور کسی اور کی محبت میں گرفتار ہونے کا کوئی سوال نہیں. تو اس معنی میں وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ِ اور ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْرِفُوْنِ‘‘ میں کوئی فرق نہیں ہے. معرفت حقیقی ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ اسی کی محبت میں گرفتار ہیں‘ اسی کی رضا جوئی میں اپنی پوری زندگی صرف کر دیں گے‘ اسی کی یاد سے آپ کے دل کو راحت اور سکون و اطمینان نصیب ہو گا. اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ. 

اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ضمن میں اب ایک بات اور نوٹ کیجیے. معرفت ِربّ کو دو حصوں میں تقسیم کیجیے‘ ایک معرفت ذات اور ایک معرفت صفات. اللہ تعالیٰ کی ذات کا کوئی تصور کسی انسان کے لیے قطعاً ممکن نہیں. یہ ہمارے لیے out of bounds ہے. اس پر سے پردہ آخرت میں اٹھے گا. چنانچہ آخری نعمت جو اہل جنت کو نصیب ہو گی وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا. گویا حور و قصور اور جنت کی جتنی نعمتوں کا بھی تذکرہ ہے‘ ان سب سے کہیں بڑھ کر اور آخری شے اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے. بہرحال معرفت ذات ہمارے لیے ناممکن ہے‘ ہم اُس کی ذات کی کنہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے. حضرت ابوبکر صدیق ص نے اس ضمن میں ایک بات کہی تھی ‘اور وہ چونکہ شعریت میں ڈھلا ہوا جملہ تھا‘ لہٰذا اس پر حضرت علیص نے گرہ لگا کر شعر بنا دیا. حضرت ابوبکرؓ ‘کی طرف یہ قول منسوب ہے : ’’العِجزُ عن دَرکِ الذَّاتِ ادراکٗ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے ادراک سے عاجز ہو جانے کا جب انسان کو احساس ہو جائے تو یہی ادراک ہے. یعنی معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد! یہی درحقیقت علم ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ کی ذات کا کوئی تصور ‘ کوئی تخیل اور کوئی فہم ہمارے لیے ممکن نہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : ’’وَالبَحث عن کُنْہِ الذَّاتِ اِشراکٗ‘‘ یعنی اللہ کی ذات میں اگر کھوج کرید کرو گے تو کہیں نہ کہیں شرک میں مبتلا ہو جائو گے. اس لیے کہ جب کھوج کرید کرو گے تو جو تمہارا اپنا ذہنی تصور ہے اس کا کوئی نہ کوئی ہیولا قائم کرو گے‘ اور وہ اللہ تو نہیں ہے‘ اللہ تو تمہارے تصور سے ماوراء ہے‘ تم نے کوئی تصور قائم کیا تو تم نے گویا خود اپنا ایک خدا بنا لیا‘ اور یہی تو شرک ہے.ایک بت تراش نے جو بت بنایا ہے تو اپنے خیال میں تو خدا بنایا ہے‘ مگر بت کو وہ اپنے خیال کے مطابق ایک انسانی صورت دے رہا ہے. اس پر بُت اس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ؎ 

مرا بر صورتِ خویش آفریدی
برونِ خویشتن آخر چہ دیدی؟

یعنی تو نے تو ایک خدا بنانا چاہا تھا ‘لیکن تو نے اپنی ہی شکل میں مجھے بھی ڈھال دیا. تیرے دو ہاتھ تھے‘ میرے بھی دو ہاتھ بنا دیے‘ تیرے دو پائوں تھے‘ تو نے میرے بھی دو پائوں بنا دیے‘ تیری دو آنکھیں تھیں‘ تو نے میری بھی دو آنکھیں بنا دیں. تو نے اپنے سے باہر بھی کچھ دیکھا؟ توواقعہ یہ ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں بھی یہ اعتراف کہ وہ ہماری رسائی سے ماوراء ‘ وراء الوراء ‘ ثم وراء الورائ‘ ثم وراء الوراء ہے‘یہی علم اور معرفت ہے. خاص طور پر حضرت مجددِ الف ثانی رحمہ اللہ علیہ کے جو مکاتیب یعنی خطوط ہیں ان مکتوبات شریفہ میں یہ الفاظ بار بار آتے ہیں. اس لیے کہ واقعتا تصوف کے وہ گوشے جو اِس کھوج کرید کی طرف لے جاتے ہیں ‘وہ گمراہی اور شرک کی طرف لے جاتے ہیں‘ جبکہ والبحث عن کنہ الذات اشراکٗ. 

اب رہ گیا ہمارے پاس صرف ایک معاملہ کہ ہم اللہ کو صرف اس کے اسماء و صفات کے حوالے سے پہچان سکتے ہیں. اسماء بھی درحقیقت اللہ کے صفاتی نام ہیں. یہ بحث ہم سورۃ الفاتحہ کے ضمن میں کیا کرتے ہیں کہ ایک رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات ’’اللہ‘‘ ہے اور باقی تمام کے تمام اسماء صفاتی ہیں. رحیمٌ صفت ہے‘ جبکہ الرحیم اس کا ایک نام بن گیا. اسی طرح علیمٌ صفت ہے‘ العلیماس کا نام ہو گیا. قادرٌ صفت ہے اور القادر ا س کا نام ہو گیا. چنانچہ تمام اسماء حسنیٰ صفاتی نام ہیں‘ بلکہ میری رائے تو ان حضرات کے ساتھ ہے جو ’’اللہ‘‘ کو بھی صفاتی نام سمجھتے ہیں. ان کے نزدیک اِلٰـــہٌ سے ’’الالٰہ‘‘ اور اس سے ’’اللہ‘‘ بنا ہے .تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کے تمام کے تمام اسماء صفاتی ہیں.ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی معرفت کا جو بھی خزانہ ہے یا اس کا جو بھی ذریعہ ہے وہ صرف اسماء و صفات ہیں. چنانچہ ایمان مجمل کے الفاظ یاد کیجیے : آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ ’’میں ایمان لایا اللہ پر (میں نے مانا اللہ کو) جیسا کہ وہ اپنے اسماء و صفات سے ظاہر ہے‘‘. یہی ایمان باللہ ہے. باقی اُس کی ذات سے کوئی بحث نہیں.