میں نے عرض کیا تھا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اسماء عام طور پر جوڑوں کی شکل میں آتے ہیں .جیسے وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۰۷﴾ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۲۱﴾ . اس ضمن میں صرف تین استثناء ات ہیں اور وہ تینوں انہی سورتوں میں ہیں. یہاں چار اسماء اکٹھے آ رہے ہیں : ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ . اسی طرح سورۃ الجمعہ کی پہلی آیت میں بھی چار اسماء اکٹھے آئے ہیں : یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾ . تیسرا استثناء سورۃ الحشر کی آخری تین آیات ہیں‘ جن میں سے درمیانی آیت تو یوں سمجھئے کہ قرآن مجید میں اسماء باری تعالیٰ کا عظیم ترین اور حسین ترین گلدستہ ہے: اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ یہاں آٹھ اسماء تسلسل کے ساتھ چلے آ رہے ہیں.

دوسرا فرق یہ نوٹ کیجیے کہ عام طور پر اَسمائِ باری تعالیٰ آیات کے آخر میں آتے ہیں‘ لیکن یہاں آیت کی اصل جو main body ہے وہ درحقیقت انہی اسماء پر مشتمل ہے. اس کی کوئی اور مثال قرآن مجید میں نہیں ہے.

تیسرا فرق جو اہم ترین ہے‘ وہ نوٹ کر لیجیے کہ قرآن مجید میں اس ایک مقام کے سوا کہیں بھی اسمائِ باری تعالیٰ کے درمیان حرفِ عطف نہیں آیا. سورۃ الحشر کی مذکورہ بالا آیت میں آٹھ اسمائِ حسنیٰ آئے ہیں لیکن درمیان میں کہیں حرفِ عطف نہیں ہے‘ کوئی فصل نہیں ہے ’’ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ‘‘ نہیں ہے.قرآن مجید میں ہر جگہ ’’ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾‘‘ ہی آیا ہے‘ کہیں ’’ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ُ‘‘ نہیں آیا .مولانا حمید الدین فراہی ؒ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے بڑی پیاری بات کہی ہے. جیسے کہ میں نے ایک بات عرض کی تھی کہ اللہ کے تمام اسماء و صفات مطلق ہیں‘ کوئی کسی کا تابع نہیں‘ ایسے ہی دوسری بات نوٹ کر لیجیے جو مولانا فراہیؒ نے لکھی ہے کہ اللہ کی تمام صفات اس کی ذات میں بیک وقت موجود ہیں ‘ جبکہ وائو باہم فصل کر دیتا ہے‘ وائو سے تو مغائرت پیدا ہوتی ہے. یہ نحو کا قاعدہ ہے کہ عطف معطوف اور معطوف الیہ میں مغائرت کا سبب بنتا ہے. اور دنیا میں ہم یہ جانتے ہیں کہ صفات عموماً جمع نہیں ہوتیں. ایک شخص ایک ہی وقت میں منتقم اور غفور تو نہیں ہو سکتا.یہ کیفیات تو مختلف ہوں گی. لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات میں یہ تمام شانیں بیک وقت اور بتمام و کمال موجود ہیں. اسی لیے کہیں فصل نہیں ہے‘ کہیں حرفِ عطف نہیں لایا گیا‘ سوائے اس مقام کے. 

اسماء باری تعالیٰ کے ضمن میں اس آیت مبارکہ میں بقیہ تمام قرآن مجید سے یہ تین امتیازی فرق ہیں ‘ان کو نوٹ کر لیجیے. باقی اس آیت مبارکہ پر مفصل گفتگو ان شاء اللہ آگے آئے گی!