آگے فرمایا : وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ’’وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو‘‘. سورۃ الحدید کی ان چھ آیتوں میں پہلی دو‘ درمیان کی دو اور آخری دو آیتوں پر مشتمل تین جوڑے ہیں اور ان کے اوّل و آخر میں ایک مناسبت ہے. درمیانی دو آیات (۳۴) اہم ترین ہیں. تیسری آیت میں وہ الفاظ آئے ہیں : ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ اور چوتھی آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں : وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ’’وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو‘‘.اس کا تعلق بھی فلسفہ وجود سے ہے. اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ہم جہاں کہیں بھی ہوں لیکن کیسے ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے.ہم اس کی کیفیت کو نہیں جان سکتے. بعض لوگوں نے اپنی ذہنی سطح کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں تجسیم کا تصور قائم کیا ہے کہ وہ کسی جہت‘ کسی مکان‘ کسی مقام پر محدود ہے. اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ایسا تصور معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ‘ بالکل درست نہیں ہے. وہ تو ہر آن ‘ہر جگہ موجود ہے‘ البتہ کیسے ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے. یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس کی ذات مطلق ہے‘ وہ کسی جگہ محدود نہیں ہے. جب کسی معاملے میں شدت آ جاتی ہے تو انسان ایک انتہا سے دوسری انتہا تک چلا جاتا ہے. اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے! حدیث قدسی میں الفاظ آتے ہیں کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ سمائے دنیا تک نزول فرماتے ہیں اور وہاں سے ندا لگتی ہے کہ : 

ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاُغْفِرَ لَہٗ؟
ھَلْ مِنْ سَائِلٍ فَاُعْطِیَہٗ؟ 

’’ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ میں اسے معاف کروں؟ ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟‘‘

ہمیں معلوم ہے کہ سات آسمان ہیں‘ ساتویں آسان کے اوپر پھر عرش کی کرسی ہے‘ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ عرش سے سمائے دنیا یعنی پہلے آسمان تک نزول فرماتا ہے. اس نزول کی کیفیت ہم نہیں جانتے.

اب اس کے بارے میں کچھ لوگ اس انتہا پر ہیں کہ وہ اس کی مطلق نفی کر دیتے ہیں کہ اللہ کے نزول کا کیا سوال؟ اللہ کسی خاص جگہ پر محدود تو نہیں ہے کہ وہاں سے نیچے اترے! اور ایک انتہا وہ ہے جو ایک روایت میں وارد ہوئی ہے کہ امام ابن تیمیہؒ ‘ منبر پر کھڑے تقریر کر رہے تھے اور ان لوگوں کی نفی کرتے ہوئے ایک ایک سیڑھی کر کے نیچے اترے اور کہا کہ اللہ ایسے اترتا ہے جیسے میں اترا ہوں. یہ دوسری انتہا ہے .ہم اپنے اترنے پر اللہ کے اترنے کو قیاس کریں تو یہ غلط ہے. ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نزول فرماتا ہے لیکن ہم اس کی کیفیت معین نہیں کر سکتے. درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تجلیات کسی خاص مقام پر مرکوز ہو سکتی ہیں‘ اللہ کی ذات کسی مقام پر محدود نہیں ہے. اللہ کی تجلیاتِ خصوصی ہیں جو کرسی پر ہیں ‘ جو عرش پر ہیں‘ جو ساتویں آسمان کے اوپر ہیں‘ جس کے بارے میں سورۃ النجم میں آیا ہے : 
عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۴﴾عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۵﴾ ’’سدرۃ المنتہیٰ کے پاس‘اس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے‘‘. مکان اور مکانیت کی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے‘ ہم ذاتِ باری تعالیٰ سے ان چیزوں کو بالکل منقطع بھی نہیں کر سکتے‘ ورنہ تو ہم قرآن مجید کی ہر آیت کی تاویل کرتے چلے جائیں گے‘ پھر تو ہر چیز استعارہ بن کر رہ جائے گی‘ لیکن اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے کسی مقام پر محدود نہیں ہے ‘ وہ اس کی خصوصی تجلی ہے جو کسی مقام پر مرکوز ہے. چنانچہ ان ہی انوار کا ذکر بایں الفاظ کیا گیا: اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾ ’’جبکہ اس سدرۃ المنتہیٰ کو ڈھانپے ہوئے تھا‘ جو ڈھانپے ہوئے تھا‘‘. ہم تو یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کیا ڈھانپے ہوئے تھا جس کے لیے قرآن مجید نے مبہم الفاظ استعمال کیے ہیں. تم کیا سمجھو گے کہ کیا ڈھانپے ہوئے تھا؟ تمہارے سامنے وہ بات بیان نہیں کی جا سکتی . اس کا مشاہدہ حضور نے اس شان کے ساتھ کیا کہ مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۷﴾ ’’نگاہ نہ کج ہوئی نہ حد سے متجاوز ہوئی‘‘. لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸’’اس نے اپنے ربّ کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کیا‘‘. وہ بیری کو ڈھانپنے والی اللہ ربّ العزت کی تجلیاتِ خصوصی تھیں‘ جو اُس وقت وہاں نزول فرما رہی تھیں اور حضور نے ان کا مشاہدہ کیا. اسی طرح اللہ تعالیٰ کی تجلیاتِ خصوصی کا کعبۃ اللہ پر ارتکاز ہے. چنانچہ اللہ کی تجلی مختلف مقامات پر ہو سکتی ہے‘ لیکن جہاں تک ذاتِ باری تعالیٰ کا تعلق ہے اس کے ساتھ اگر کسی جسمانیت‘ کسی جہت یا کسی مقام کا تصور کیا جائے تو میرے خیال میں یہ اللہ کے شایانِ شان نہیں ہے. ہمیں یقین رکھناچاہیے کہ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ْ ’’اورجہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے‘‘.اگرچہ ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کیسے ہمارے ساتھ ہے. اس کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے‘ معیت کو ہم جانتے ہیں. اللہ ہمارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی ہم ہوتے ہیں .