پھر فرمایا : لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ’’اُسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے‘‘.
میں عرض کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے ضمن میں جو بھی بڑے بڑے مسائل ہیں‘ جو بھی فلسفیانہ مشکلات ہیں اور جو بھی مغالطے ہیں وہ سب ان چھ آیات میں حل کیے گئے ہیں. ان چھ آیات میں دو مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں : لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ِ اس سے اندازہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تصور کو قرآن مجید کتنا emphasize کرنا چاہتا ہے.سارا فساد تو اسی کا ہے کہ انسان خود حاکم بن کر بیٹھ گیا ہے اور اسی کا نام بغاوت ہے. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حکومت اللہ کی ہے اور زمین پر اس حکومت کو بالفعل قائم کرنے کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن لگا دینا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ماننے والوں کا فرضِ منصبی ہے. چنانچہ ان چھ آیات کے بعد جب مطالبات آئیں گے تو اہل ایمان سے انفاقِ مال اور بذلِ نفس کا مطالبہ کیا جائے گا:اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ’’ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے‘‘.
اللہ کی راہ میں لگا دو‘ کھپا دو اور خرچ کر دو ان تما م چیزوں میں سے جن پر ہم نے تم کو اختیار دیا ہے‘ تمہیں استخلاف عطا کیا ہے. لیکن یہ انفاق‘ لگانا‘ کھپانا‘ خرچ کرنا‘ جان کا کھپانا‘ مال کا خرچ کرنا‘ اپنی صلاحیتیں‘ اپنی ذہانت‘ اپنے اوقات لگا دینا‘ اپنے آپ کو ہمہ تن کھپا دینا کس لیے؟تاکہ اللہ کا حق بحال (restore) کرایا جائے.اس کی حکومت کے اندر بغاوت ہو گئی ہے‘ انسان اپنی حاکمیت کے مدعی بن کر کھڑے ہو گئے ہیں. یہ اس زمین کے بادشاہِ حقیقی کے خلاف عالمگیر بغاوت ہے. اور اب انسانی حاکمیت (Human Sovereignty) حاکمیت ِجمہور (Popular Sovereignty) میں تبدیل ہو چکی ہے اور یہ نجاست اب عالمی سطح پر جڑ پکڑ چکی ہے . ازروئے الفاظ قرآنی : ظَھَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡر یہ فساد بر و بحر کے اندر رونما ہو چکا ہے اور اب یہ نجاست ایک نظریہ کے طور پر تمام انسانوں کے اندر تقسیم کر دی گئی ہے. پہلے ایک شخص فرعون یا نمرود کی صورت میں حاکمیت کا دعویٰ کرتا تھا کہ ’’اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی‘‘ مگر آج وہ ٹنوں گندگی تولہ تولہ ماشہ ماشہ عام آدمی کو بھی پہنچا دی گئی ہے. یہ ہے اصل گمراہی ‘ اصل بغاوت اور اصل فساد. اور جو اللہ کا وفادار ہے اس کا فرضِ عین قرار پاتا ہے کہ اس بغاوت کا قلع قمع کر ے اور اللہ کا حق اس کو لوٹائے ‘تاکہ زمین پر اللہ کی حاکمیت بالفعل قائم ہو جائے.