آیت کے آخری الفاظ ہیں : وَ ہُوَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۶﴾ ’’اور وہ سینوں کے پوشیدہ راز تک جانتا ہے‘‘. جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے وہ اس کا جاننے والا ہے. 

سورۃ الحدید کی یہ چھ آیات اللہ تعالیٰ کے اسمائِ صفات اور اس کی معرفت کے بیان میں بہت اہم ہیں. ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم نہایت جامعیت کے ساتھ بیان ہوئی ہے. سب سے پہلے فرمایا: 

وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳﴾ 
’’اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے.‘‘

پھر اگلی آیت میں اس وضاحت کے بعد کہ وہ صرف کلیات ہی کا عالم نہیں‘ جزئیات سے بھی پوری طرح واقف ہے‘ فرمایا: 

وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۴﴾ 
’’اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے.‘‘

اور اب یہاں فرمایا کہ یہی نہیں‘ بلکہ: 

وَ ہُوَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۶﴾ 
’’وہ تو اسے بھی جانتا ہے جو تمہارے سینوں میں مخفی ہے.‘‘

اور آیت ۱۰ کے آخر میں آئے گا : 
وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿٪۱۰﴾ 
’’اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے.‘‘ اس طرح اس سورۂ مبارکہ کے آغاز میں علم خداوندی کا ذکر کتنے مختلف اسالیب اور کتنے مختلف dimensions سے کیا گیا ہے. 

سورۂ تغابن میں اللہ تعالیٰ کے علم کو تین اسلوبوں سے ایک ہی آیت میں بیان کیا گیا ہے : یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ’’وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے‘‘ وَ یَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ ؕ ’’اور و ہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو‘‘. وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۴﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتا ہے جو سینوں میں پوشیدہ ہے‘‘.وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے‘ وہ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ہے.

آخری بات یہ نوٹ کیجیے کہ سلسلۂ مُسَبِّحات میں سے اوّلین سورۃ الحدید ہے‘ جسے ’’اُمّ الْمُسَبِّحات‘‘ کا درجہ حاصل ہے‘ جبکہ مُسبّحات میں سے آخری سورۂ تغابن ہے‘ جس کا مطالعہ ہم کر چکے ہیں. سورۂ تغابن کا عنوان ہی ’’ایمان اور اس کے ثمرات و مضمرات‘‘ ہے.سورۃ الحدید کے جو مضامین ہم پڑھ چکے ہیں ان میں سے بعض مضامین وہاں تکرار کے ساتھ آئے ہیں. اللہ تعالیٰ کے علم‘ قدرت اور حکومت‘ تینوں کا وہاں ذکر ہے. البتہ فلسفیانہ مضامین صرف یہیں ہیں: 

ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ 

اور: 

وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ 
یہ درحقیقت فلسفۂ وجود کی سطح پر معرفت خداوندی کی بلند ترین منزل ہے اور یہ بحث قرآن مجید میں صرف اسی مقام پر آئی ہے.