میں اگرچہ اپنے طو رپر تو فیصلہ کر چکا تھا کہ سورۃ الحدید کے حصہ اوّل پر‘ جو چھ آیات پر مشتمل ہے‘ ہماری گفتگو اب مکمل ہو گئی ہے اور اب ہمیں آگے بڑھنا ہے. لیکن گزشتہ درس کے بارے میں مجھ سے ایک استفسار کیا گیا ہے جس سے نشان دہی ہوئی ہے کہ میری گفتگو میں ایک خلا رہ گیا ہے جسے پُر ہونا چاہیے. دوسرے یہ کہ وحدتُ الوجود کے ضمن میں اب تک ہونے والی گفتگو کے بارے میں مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ شاید میرا ذاتی موقف پورے طور پر واضح نہیں ہو سکا اور عین ممکن ہے کہ زندگی میں آخری مرتبہ ان آیات پر گفتگو ہو رہی ہو‘ لہذا میں چاہتا ہوں کہ وحدت الوجود کے بارے میں اپنا ذاتی موقف بھی پوری طرح وضاحت سے بیان کر دوں‘ مبادا کوئی مغالطہ باقی رہے اور غلط فہمی پیدا ہو جائے. جن حضرات پر یہ بحث کچھ گراں گزر رہی ہو اُن سے میں معذرت خواہ ہوں. متذکرہ بالا دو اسباب کی بنا پر ہمیں ابھی اپنے سابقہ موضوع کو جاری رکھنا ہے. 

میں نے یہ کہا تھا کہ قرآن مجید میں صرف یہ ایک مقام ہے ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ جہاں اللہ تعالیٰ کے اسماء کے مابین حرف عطف آیا ہے. اور نحو کا قاعدہ یہ ہے کہ معطوف اور معطوف الیہ میں مغائرت ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں اسی سلسلۂ سور میں سورۃ الحشر کے آخر میں جو آیت مبارکہ وارد ہوئی ہے وہاں تسلسل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آٹھ اسمائِ حسنیٰ آئے ہیں ‘لیکن ان کے درمیان کہیں کوئی حرفِ عطف نہیںہے: اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ جبکہ یہ واحد مقام ہے جہاں حرفِ عطف آیا ہے . اس ضمن میں مجھ سے سوال کیا گیا ہے کہ اس مقام پر اسماء باری تعالیٰ کے درمیان حرفِ عطف کیوں آیا ہے؟ 

چنانچہ اس ضمن میں وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘اوّل‘ آخر‘ ظاہر اور باطن یہ چاروں اسماء ایسے ہیں جو کسی نسبت اضافی کا تقاضا کرتے ہیں. جیسے اَوَّلُہٗ‘آخِرُہٗ‘ ظَاہِرُہٗ‘ بَاطِنُہٗ. میں نے مثال دی تھی کہ حضور نے شعبان کے آخری دن ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس میں رمضان المبارک کی عظمت کا بیان ہے. اس کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے : اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ ’’اس (ماہِ مبارک)کا پہلا حصہ (عشرہ) رحمت ہے‘ دوسرا حصہ مغفرت ہے اور آخری (عشرہ) آگ سے نجات ہے‘‘. اسی طرح ظاہر و باطن کے لیے اسی سورۃ کے دوسرے رکوع میں الفاظ آئے ہیں : فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ؕ بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ ﴿ؕ۱۳﴾ یہاں باطن کی اضافت بھی ’’ہٗ‘‘ کی طرف ہے اور ظاہر کی اضافت بھی ’’ہٗ‘‘ کی طرف ہے. تو درحقیقت زیر نظر آیت میں مراد یہ ہے کہ اس سلسلۂ کون و مکان‘ اس سلسلۂ تخلیق کا اوّل بھی اللہ ہے‘ آخر بھی اللہ ہے‘ اس کا ظاہر بھی اللہ ہے اور باطن بھی اللہ ہے. 

یہاں یہ بات سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ اوّل و آخر میں تو لازماً مغائرت ہو گی. اگر درمیان میں کوئی فصل ہے‘ کوئی زمانی بعد ہے تو اَوّلُہٗ وَاٰخِرُہٗ ایک وقت میں نہیں ہوسکتے. خود ان الفاظ کا تقاضا ہے کہ ان میں لازماً مغائرت ہونی چاہیے. یوں سمجھئے کہ ایک وقت تھا کہ صرف ذاتِ باری تعالیٰ تھی‘ کائنات نہیں تھی. پھر کائنات کو وجود بخشا گیا تو اس کا اوّل یعنی نقطۂ آغاز اللہ ہے‘ جہاں سے یہ کائنات شروع ہو رہی ہے. اس کے بعد پھر ایک وقت آئے گا کہ صرف اللہ کی ذات ہو گی‘ کائنات نہیں ہو گی. گویا یہ اس کا آخر یا نقطۂ اختتام ہے. چنانچہ اس کائنات کا اوّل و آخر ذاتِ باری تعالیٰ ہے‘ درمیان میں یہ کائنات ہے. اور اس کائنات میں ظاہر و باطن کی dimensions پیدا ہوئیں تاکہ احاطہ ہو جائے کہ وہی وہ ہے .ظاہر و باطن تو یقینا بیک وقت (simultaneous) ہیں‘ ان میں مغائرت نہیں ہو سکتی. کسی شے کا ظاہر و باطن تو ساتھ ہی ہوں گے. پہلے دو اسماء مغائرت اور فصل کے متقاضی ہیں ‘اس لیے ان کے درمیان حرفِ عطف آ گیا‘ اسی مناسبت سے پھرپوری آیت کے اندر حرفِ عطف لایا گیا. اس سے یہ بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ درحقیقت اس آیۂ مبارکہ کا موضوع حقیقت وجود ہے.