جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ اُس زمانے (۵۶.۱۹۵۵ء) میں مَیں اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ طریقت اور شریعت دونوں کا تعلق ’’ہمہ از اوست‘‘ یا ’’ہمہ با اوست‘‘ سے ہے‘ جب کہ حقیقت ’’وحدت الوجود‘‘ ہے جو ’’ہمہ اوست‘‘ ہی کی ایک محتاط تعبیر ہے. اُس زمانے میں ایک تشبیہہ یا تمثیل بھی میرے ذہن میں آئی تھی کہ ’’سورج مکھی کے پھول بن جاؤ!‘‘ اس کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ا س سے کیا مراد ہے. آپ کو معلوم ہے کہ سائنس کے نظریات میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے. لیکن میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں اُس وقت یہ خیال بہت غالب تھا کہ ہماری یہ زمین درحقیقت سورج کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکڑا ہے اور دوسرے سیارے جو سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں وہ بھی سورج ہی کے ٹکڑے ہیں. چنانچہ جس طرح سورج اپنے محور کے گرد حرکت کر رہا ہے اسیmomentum کا نتیجہ ہے کہ اس سے ٹوٹنے والے ٹکڑے بھی اس کے گرد چکر لگانے لگے . تو گویا یوں سمجھئے کہ ابتدا میں ہماری زمین بھی آگ کا ایک بہت بڑا کرہ تھی‘ پھر یہ ٹھنڈا ہونا شروع ہوئی. اس کے ٹھنڈا ہونے کے دو نتیجے نکلے. ایک یہ کہ اس سے بخارات نکلے جو اوپر گئے تو انہوں نے فضا (کرہ ہوائی) کی صورت اختیار کی. دوسرے یہ کہ ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے خود زمین سکڑ گئی‘جس کے نتیجے میں اس کی سطح پر کہیں بلندیاں پیدا ہو گئیں اور کہیں گہرے غار وجود میں آگئے. فضا کا غلاف ہماری زمین کے گرد تیس پینتیس میل ہے . فضا میں جمع ہونے والی گیسوں کے نتیجہ میں بارش ہوئی اور نہ معلوم کتنے عرصہ تک بارش ہی ہوتی رہی ‘ جس سے نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہو گیا اور اس طرح سمندر وجود میں آئے. جو علاقے اونچے تھے وہ خشکی قرار پائے. پھر جہاں یہ بر و بحر آپس میں جڑے ہوئے تھے وہاں دلدلی علاقوں میں حیاتِ ارضی کا آغاز ہوا. یہ حیاتِ ارضی دو طرح کی تھی : ۱. حیاتِ نباتاتی (Plant Kingdom) ۲ . حیاتِ حیوانی (Animal Kingdom) 

حقیقت کے اعتبار سے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس زمین پر جو بھی ہے وہ سورج ہی سے ہے (ہمہ از اوست) ‘یہ سب سورج ہی کا ظہور ہے. زمین بھی سورج ہی کا ٹکڑا تھی جو ٹھنڈا ہوا‘ پھر اسی میں سے
gases نکلی تھیں‘ خارج سے تو کوئی شے نہیں آئی.ہوا بھی وہیں سے ہے ‘خشکی بھی وہیں سے ہے اور سمندر بھی وہیں سے ہیں .پھر وہیں کے امتزاج (interaction) سے اس دلدلی علاقے میں حیاتِ نباتاتی اور حیاتِ حیوانی کا آغاز ہوا. گویا زمین پر جو کچھ ہے اس کا ماخذ (origin) سورج ہے. گویا یہ تو ہوئی حقیقت.اصل طریقت اور شریعت کیا ہے؟ وہ سورج مکھی کے پھول کا طرزِ عمل ہے. جیسے ہی سورج طلوع ہوتا ہے وہ اپنا رُخ سورج کی طرف کر لیتا ہے‘ جیسے جیسے سورج گردش کرتا ہے اس کا رخ بدلتا جاتا ہے‘ جب سورج غروب ہوتا ہے تو پھول بھی مرجھا جاتا ہے.

اگلی صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ پھر ترو تا زہ ہو جاتا ہے. گویا کہ سورج مکھی کے پھول نے اپنے وجود کا مقصد اور اپنا نصب العین یہ مقرر کیا کہ وہ اپنے اصل مبدأ کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھے. یہی طرزِ عمل ایک بندۂ مؤمن سے مطلوب ہے: اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾ (الانعام) بجائے اس کے کہ سورج مکھی کا پھول اس سوچ بچار میں غلطاں وپیچاں رہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں‘ سورج کا ٹکڑا ہوں‘ میری زمینی حیات کا آغاز کیسے ہوا‘ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا رخ سورج کی طرف رکھو. اسی طرح ہمیں اس فکر میں غلطاں و پیچاں ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم کہاں سے وجود میں آئے ہیں اور کیسے وجود میں آئے ہیں‘ ہمارے وجود اور ہماری زندگی کا مقصد صرف یہ ہوناچاہیے کہ: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت) اور اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) سورج مکھی کے پھول کی طرح ہمارے دل کی کلی کھلے تو اس سے کہ ہم اللہ کو یاد کر رہے ہیں‘ اللہ کے حضور میں حاضر ہیں.اور اگر کہیں بھی بندۂ مؤمن محسوس کرے کہ غیاب ہو گیا ہے‘ حضوری نہیں رہی‘ کوئی بعد ہو گیا ہے‘ میری توجہ کسی اور طرف مبذول ہو گئی ہے‘ میں کچھ غافل ہو گیا ہوں تو فوراً اس پر پچھتاوے کی کیفیت طاری ہو اور وہ پھر اپنا رخ اسی کی طرف کرلے‘ جیسے سورج مکھی کامعاملہ ہے کہ سورج طلوع ہوتے ہی وہ کھل اٹھتا ہے اور پورا دن جدھر سورج جاتا ہے ادھر ہی وہ ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا ہے ‘اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو وہ بھی بجھ کر رہ جاتا ہے .یہ ہے اصل میں حقیقت ‘ طریقت اورشریعت. حقیقت تو یہی ہے کہ سورج مکھی بھی سورج سے نکلی ہوئی ایک شے ہے ‘لیکن ہماری توجہ اصلاً طریقت اور شریعت پر مرکوز ہونی چاہیے.